مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 2

کلیسیا میں یہوواہ کی ستائش کریں

کلیسیا میں یہوواہ کی ستائش کریں

‏”‏مَیں .‏ .‏ .‏ جماعت میں تیری ستایش کروں گا۔‏“‏‏—‏زبور 22:‏22‏۔‏

گیت نمبر 9‏:‏ یہوواہ کی حمد کرو!‏

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ داؤد،‏ یہوواہ کے بارے میں کیسا محسوس کرتے تھے اور اِس سے اُنہیں کیا کرنے کی ترغیب ملی؟‏

بادشاہ داؤد نے لکھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ بزرگ اور بےحد ستایش کے لائق ہے۔‏“‏ (‏زبور 145:‏3‏)‏ داؤد،‏ یہوواہ سے محبت کرتے تھے اور اِس محبت نے اُنہیں یہ ترغیب دی کہ وہ ”‏جماعت میں“‏ یہوواہ کی ستائش کریں۔‏ (‏زبور 22:‏22؛‏ 40:‏5‏)‏ بےشک آپ بھی یہوواہ سے پیار کرتے ہیں اور ویسے ہی احساسات رکھتے ہیں جیسے داؤد اِن الفاظ کو لکھتے وقت رکھتے تھے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ ہمارے باپ اِسرائیل کے خدا تُو ابداُلآباد مبارک ہو۔‏“‏—‏1-‏توا 29:‏10-‏13‏۔‏

2.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ کی ستائش کرنے کا ایک طریقہ کیا ہے؟‏ (‏ب)‏ کچھ بہن بھائیوں کو کس مسئلے کا سامنا ہے اور ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

2 آج یہوواہ کی ستائش کرنے کا ایک طریقہ اِجلاسوں میں جواب دینا ہے۔‏ لیکن ہمارے کچھ بہن بھائیوں کو اِس حوالے سے ایک مسئلے کا سامنا ہے۔‏ وہ اِجلاسوں میں حصہ تو لینا چاہتے ہیں لیکن ڈر کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے۔‏ وہ اپنے اِس ڈر پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟‏ اِس مضمون میں ہم اِس سوال کا جواب حاصل کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ ایسی تجاویز پر بات کریں گے جن پر عمل کرنے سے ہم اِجلاسوں میں حوصلہ‌افزا جواب دے سکتے ہیں۔‏ لیکن آئیں،‏ پہلے چار ایسی وجوہات پر غور کریں جن کی بِنا پر ہم اِجلاسوں میں جواب دیتے ہیں۔‏

ہم اِجلاسوں میں جواب کیوں دیتے ہیں؟‏

3-‏5.‏ ‏(‏الف)‏ عبرانیوں 13:‏15 سے ہمیں اِجلاسوں میں جواب دینے کی کون سی وجہ پتہ چلتی ہے؟‏ (‏ب)‏ جب اِجلاسوں میں جواب دینے کی بات آتی ہے تو یہوواہ ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟‏ وضاحت کریں۔‏

3 یہوواہ نے ہم سب کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ ہم اُس کی ستائش کریں۔‏ ‏(‏زبور 119:‏108‏)‏ اِجلاسوں میں ہمارے جواب ’‏حمدوستائش کی قربانیوں‘‏ کا حصہ ہوتے ہیں اور کوئی اَور ہماری طرف سے یہ قربانیاں نہیں چڑھا سکتا۔‏ ‏(‏عبرانیوں 13:‏15 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن کیا یہوواہ اپنے ہر بندے سے ایک جیسی قربانی یا جواب کی توقع کرتا ہے؟‏ جی نہیں۔‏

4 یہوواہ جانتا ہے کہ ہم سب کی صلاحیتیں اور حالات فرق فرق ہوتے ہیں اور وہ اُن قربانیوں کی بڑی قدر کرتا ہے جو ہم اپنی صورتحال کے مطابق اُس کے لیے چڑھاتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ذرا سوچیں کہ بنی‌اِسرائیل کے دَور میں یہوواہ کے نزدیک کیسی قربانیاں قابلِ‌قبول ہوتی تھیں۔‏ کچھ اِسرائیلی،‏ میمنے یا بکرے کی قربانی چڑھانے کے قابل ہوتے تھے۔‏ لیکن غریب اِسرائیلی ”‏دو قمریاں یا کبوتر کے دو بچے“‏ قربانی کے طور پر پیش کر سکتے تھے۔‏ (‏احبا 5:‏7‏)‏ اور اگر ایک اِسرائیلی کے مالی حالات اُسے یہ قربانی چڑھانے کی بھی اِجازت نہیں دیتے تھے تو وہ ”‏ڈیڑھ کلوگرام بہترین میدہ“‏ پیش کر سکتا تھا۔‏ (‏احبا 5:‏11‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ میدہ دوسری چیزوں کے مقابلے میں کافی سستا تھا لیکن یہوواہ اِسے بھی تبھی قبول کرتا تھا اگر یہ ”‏بہترین میدہ“‏ ہوتا تھا۔‏

5 ہمارا شفیق خدا آج ہم سے بھی ایسی ہی توقع کرتا ہے۔‏ جب ہم جواب دیتے ہیں تو وہ یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ ہم سب اپلّوس جتنے مؤثر طریقے سے بات کریں یا پولُس جتنی مہارت سے دوسروں کو قائل کریں۔‏ (‏اعما 18:‏24؛‏ 26:‏28‏)‏ یہوواہ ہم سے بس یہ چاہتا ہے کہ ہمارے لیے جس حد تک ممکن ہے،‏ ہم اُس کے حساب سے بہترین جواب دیں۔‏ اِس سلسلے میں اُس بیوہ کو یاد رکھیں جس نے ہیکل میں دو چھوٹے سِکے ڈالے تھے۔‏ یہوواہ اُس بیوہ کی بڑی قدر کرتا تھا کیونکہ اُس نے اپنے حالات کے مطابق اپنی بہترین چیز دی تھی۔‏—‏لُو 21:‏1-‏4‏۔‏

جواب دینے سے ہمیں بھی فائدہ ہوتا ہے اور سننے والوں کو بھی۔‏ (‏پیراگراف نمبر 6،‏ 7 کو دیکھیں۔‏)‏ *

6.‏ ‏(‏الف)‏ عبرانیوں 10:‏24،‏ 25 کی روشنی میں بتائیں کہ جب ہم اِجلاسوں میں دوسروں کے جواب سنتے ہیں تو ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔‏ (‏ب)‏ آپ ایسے جوابوں کے لیے قدر کیسے ظاہر کر سکتے ہیں جن سے آپ کی حوصلہ‌افزائی ہوتی ہے؟‏

6 ہم اپنے جوابوں سے ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں 10:‏24،‏ 25 کو پڑھیں۔‏)‏ ہم سب کو اِجلاسوں میں فرق فرق طرح کے جواب سننا اچھا لگتا ہے۔‏ مثال کے طور پر جب ایک بچہ دل سے کوئی سادہ سا جواب دیتا ہے تو ہمارے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔‏ یا جب کوئی شخص جوش بھرے لہجے میں کسی ایسی سچائی کے بارے میں بتاتا ہے جو اُس نے حال ہی میں سیکھی ہے تو اُس کا جواب ہمارے دل کو چُھو لیتا ہے۔‏ یا پھر جب کوئی ایسا شخص ”‏ہمت جمع“‏ کر کے جواب دیتا ہے جو شرمیلا ہے یا ہماری زبان سیکھ رہا ہے تو ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے۔‏ (‏1-‏تھس 2:‏2‏)‏ ہم ایسے تمام اشخاص کی کوشش کے لیے قدر کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ ہم اِجلاس کے بعد اُن کے حوصلہ‌افزا جواب کے لیے اُن کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں۔‏ اُن کے لیے قدر ظاہر کرنے کا ایک اَور طریقہ یہ ہے کہ ہم خود بھی جواب دیں۔‏ اِس طرح ہم نہ صرف اِجلاسوں میں حوصلہ‌افزائی حاصل کریں گے بلکہ دوسروں کے لیے حوصلہ‌افزائی کا باعث بھی بنیں گے۔‏—‏روم 1:‏11،‏ 12‏۔‏

7.‏ ہمیں اِجلاسوں میں جواب دینے سے فائدہ کیوں ہوتا ہے؟‏

7 جواب دینے سے ہمیں خود فائدہ ہوتا ہے۔‏ ‏(‏یسع 48:‏17‏)‏ لیکن کیسے؟‏ پہلی بات یہ ہے کہ اگر ہم اِجلاس کے دوران جواب دینے کا اِرادہ رکھتے ہیں تو ہمیں اِجلاس کی اچھی تیاری کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏ جب ہم اِجلاس کی اچھی تیاری کرتے ہیں تو ہم خدا کے کلام کو اَور گہرائی سے سمجھ پاتے ہیں۔‏ اور جتنی گہرائی سے ہم پاک کلام کو سمجھتے ہیں اُتنی اچھی طرح ہم سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کر پاتے ہیں۔‏ دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم اِجلاسوں میں جواب دیتے ہیں تو ہمیں اِن میں حاضر ہونے کا زیادہ مزہ آتا ہے۔‏ تیسری بات یہ ہے کہ چونکہ ہمیں جواب دینے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اِس لیے ہم اِجلاس کے کافی عرصے بعد بھی اُن نکتوں کو یاد رکھ پاتے ہیں جن پر ہم نے تبصرہ کِیا ہوتا ہے۔‏

8،‏ 9.‏ ‏(‏الف)‏ جب ہم جواب دیتے ہیں تو ملاکی 3:‏16 کے مطابق یہوواہ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ کچھ بہن بھائیوں کو کس مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے؟‏

8 جب ہم اپنے ایمان کا اِظہار کرتے ہیں تو یہوواہ خوش ہوتا ہے۔‏ ہم اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمارے جوابوں کو سنتا ہے اور ہماری اُس محنت کی بڑی قدر کرتا ہے جو ہم جواب دینے کے لیے کرتے ہیں۔‏ ‏(‏ملاکی 3:‏16 کو پڑھیں۔‏)‏ جب ہم یہوواہ کو خوش کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں تو وہ ہمیں برکت دینے سے ہمارے لیے قدر ظاہر کرتا ہے۔‏—‏ملا 3:‏10‏۔‏

9 لہٰذا ہمارے پاس اِجلاسوں میں جواب دینے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔‏ لیکن پھر بھی شاید کچھ بہن بھائی اِجلاس کے دوران ہاتھ کھڑا کرنے سے ڈریں۔‏ اگر آپ بھی ایسا محسوس کرتے ہیں تو بےحوصلہ نہ ہوں۔‏ آئیں،‏ بائبل سے کچھ اصولوں،‏ چند مثالوں اور کچھ تجاویز پر بات کریں جن کی مدد سے ہم اِجلاسوں کے دوران زیادہ جواب دینے کے قابل ہوں گے۔‏

اپنے ڈر پر قابو کیسے پائیں؟‏

10.‏ ‏(‏الف)‏ جب جواب دینے کی بات آتی ہے تو ہم میں سے بہت سے کن باتوں کے حوالے سے فکرمند ہوتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگر آپ جواب دینے سے ڈرتے ہیں تو یہ کس بات کا نشان ہو سکتا ہے؟‏

10 آپ اِجلاس کے دوران جب بھی جواب دینے کے لیے ہاتھ کھڑا کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں تو کیا آپ کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔‏ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ‌تر جواب دیتے وقت کسی حد تک گھبراتے ہیں۔‏ گھبراہٹ کے اِس احساس پر قابو پانے کے لیے آپ کو پہلے اِس کی وجہ پہچاننے کی ضرورت ہے۔‏ کیا آپ کو یہ ڈر ہے کہ آپ جواب دیتے وقت وہ بات بھول جائیں گے جو آپ کہنا چاہتے ہیں یا آپ غلط جواب دے دیں گے؟‏ یا کیا آپ کو اِس بات کی فکر ہوتی ہے کہ آپ کا جواب دوسروں جتنا اچھا نہیں ہوگا؟‏ ویسے اگر آپ کو اِن باتوں کا ڈر ہے تو یہ ایک لحاظ سے اچھا ہے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ خاکسار ہیں اور دوسروں کو خود سے بڑا سمجھتے ہیں۔‏ یہوواہ کو خاکساری کی خوبی بہت پسند ہے۔‏ (‏زبور 138:‏6؛‏ فل 2:‏3‏)‏ لیکن یہوواہ یہ بھی چاہتا ہے کہ آپ اُس کی ستائش کریں اور اِجلاسوں پر اپنے بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھائیں۔‏ (‏1-‏تھس 5:‏11‏)‏ وہ آپ سے پیار کرتا ہے اور آپ کو ہمت دے گا۔‏

11.‏ ہمیں پاک کلام کی کن یاددہانیوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے؟‏

11 ذرا پاک کلام سے کچھ یاددہانیوں پر غور کریں۔‏ اِس میں بتایا گیا ہے کہ اکثر ہم سب کی باتیں یا بات کرنے کا طریقہ غلط ہوتا ہے۔‏ (‏یعقو 3:‏2‏)‏ نہ تو یہوواہ اور نہ ہی ہمارے بہن بھائی ہم سے یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم بےعیب ہوں۔‏ (‏زبور 103:‏12-‏14‏)‏ ہمارے مسیحی بہن بھائی ہمارا روحانی خاندان ہیں اور وہ ہم سے بہت پیار کرتے ہیں۔‏ (‏مر 10:‏29،‏ 30؛‏ یوح 13:‏35‏)‏ وہ سمجھتے ہیں کہ جواب دیتے وقت کبھی کبھار ہم اُس بات کا صحیح طرح اِظہار نہیں کر پاتے جو ہم کہنا چاہتے ہیں۔‏

12،‏ 13.‏ ہم نحمیاہ اور یُوناہ کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

12 اب پاک کلام سے کچھ لوگوں کی مثالوں پر غور کریں۔‏ یوں آپ کو اپنے خوف پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔‏ مثال کے طور پر نحمیاہ کے بارے میں سوچیں۔‏ وہ ایک طاقت‌ور بادشاہ کے دربار میں کام کرتے تھے۔‏ ایک بار نحمیاہ بہت اُداس تھے کیونکہ اُنہیں پتہ چلا تھا کہ یروشلیم کی دیواریں اور پھاٹک تباہ ہوئے پڑے ہیں۔‏ (‏نحم 1:‏1-‏4‏)‏ ذرا تصور کریں کہ جب بادشاہ نے اُن سے اُن کی اُداسی کی وجہ پوچھی ہوگی تو وہ کتنے گھبرا گئے ہوں گے۔‏ مگر اُنہوں نے فوراً خدا سے دُعا کی اور بادشاہ کو جواب دیا۔‏ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بادشاہ نے خدا کے بندوں کی بڑی مدد کی۔‏ (‏نحم 2:‏1-‏8‏)‏ اب ذرا یُوناہ کی مثال پر غور کریں۔‏ جب یہوواہ نے اُنہیں نینوہ کے لوگوں کو پیغام سنانے کے لیے کہا تو وہ اِتنا ڈر گئے کہ مخالف سمت میں بھاگ نکلے۔‏ (‏یُوناہ 1:‏1-‏3‏)‏ لیکن یہوواہ کی مدد سے یُوناہ نے اپنی ذمےداری کو پورا کِیا۔‏ اور اُنہوں نے نینوہ کے لوگوں سے جو باتیں کہیں،‏ اُن سے اُن لوگوں کا بڑا بھلا ہوا۔‏ (‏یُوناہ 3:‏5-‏10‏)‏ نحمیاہ سے ہم سیکھتے ہیں کہ جواب دینے سے پہلے دُعا کرنا کتنا اہم ہے۔‏ اور یُوناہ کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ چاہے ہم کتنے ہی خوف‌زدہ ہوں،‏ یہوواہ ہماری مدد کر سکتا ہے تاکہ ہم اُس کی خدمت کریں۔‏ اور ذرا سوچیں،‏ بہن بھائیوں کے سامنے جواب دینا نینوہ کے ظالم لوگوں کے سامنے مُنادی کرنے سے مشکل تو نہیں ہو سکتا نا؟‏

13 آئیں،‏ اب کچھ تجاویز پر بات کریں جن کی مدد سے ہم اِجلاسوں میں حوصلہ‌افزا تبصرے کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‏

14.‏ ہمیں اِجلاسوں کی اچھی تیاری کیوں کرنی چاہیے اور ہم ایسا کب کر سکتے ہیں؟‏

14 ہر اِجلاس کی تیاری کریں۔‏ اگر آپ اِجلاس کی اچھی تیاری کرتے ہیں تو آپ جواب دینے کے سلسلے میں زیادہ پُراعتماد محسوس کریں گے۔‏ اِجلاس کی تیاری کرنے کے حوالے سے ہم سب کا معمول ایک جیسا نہیں ہوتا۔‏ ایلویز نامی ایک بیوہ بہن جن کی عمر 80 سال سے زیادہ ہے،‏ ہفتے کے آغاز میں ہی ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ کے مطالعے کے مضمون کی تیاری شروع کر دیتی ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏جب مَیں پہلے سے اِجلاس کی تیاری کرتی ہوں تو مجھے اِجلاس میں زیادہ مزہ آتا ہے۔‏“‏ جوئے جو کُل‌وقتی ملازمت کرتی ہیں،‏ ہفتے والے دن ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ کے مطالعے کے مضمون کی تیاری کرتی ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں چاہتی ہوں کہ میرے ذہن میں ساری باتیں تازہ رہیں۔‏“‏ آئیک جو کہ بزرگ اور پہل‌کار ہونے کی وجہ سے کافی مصروف رہتے ہیں،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں ایک ہی بار بہت زیادہ وقت کے لیے مطالعہ کرنے کی بجائے ہفتے کے دوران تھوڑے تھوڑے وقت کے لیے ایسا کرتا رہتا ہوں۔‏“‏

15.‏ آپ اِجلاس کی اچھی تیاری کیسے کر سکتے ہیں؟‏

15 اِجلاس کی اچھی تیاری کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ ہمیشہ تیاری کرنے سے پہلے یہوواہ سے پاک روح مانگیں۔‏ (‏لُو 11:‏13؛‏ 1-‏یوح 5:‏14‏)‏ پھر کچھ منٹ کے لیے مضمون پر سرسری سی نظر ڈالیں۔‏ عنوان،‏ ذیلی عنوانات،‏ تصاویر اور دُہرائی کے لیے دیے گئے سوالات وغیرہ کا جائزہ لیں۔‏ پھر ہر پیراگراف کا مطالعہ کرتے وقت جتنی حوالہ‌شُدہ آیتیں آپ پڑھ سکتے ہیں،‏ اُنہیں پڑھیں۔‏ معلومات پر سوچ بچار کریں اور ایسے نکتوں پر خاص توجہ دیں جنہیں آپ اپنے جواب میں اِستعمال کرنا چاہتے ہیں۔‏ آپ جتنی اچھی تیاری کریں گے،‏ آپ کو اُتنا زیادہ فائدہ ہوگا اور آپ کے لیے جواب دینا اُتنا زیادہ آسان ہوگا۔‏—‏2-‏کُر 9:‏6‏۔‏

16.‏ آپ کے لیے کون سی سہولتیں دستیاب ہیں اور آپ اِنہیں کیسے اِستعمال کرتے ہیں؟‏

16 اگر آپ کے لیے ممکن ہے تو اپنی زبان میں دستیاب ایسی سہولتوں کو اِستعمال کریں جنہیں موبائل یا ٹیبلٹ وغیرہ پر چلایا جاتا ہے۔‏ یہوواہ نے اپنی تنظیم کے ذریعے ہمیں یہ سہولتیں فراہم کی ہیں تاکہ ہم اِجلاسوں کی تیاری کر سکیں۔‏ مثال کے طور پر ‏”‏جےڈبلیو لائبریری (‏رجسٹرڈ)‏“‏ ایپ کے ذریعے ہم اِجلاسوں میں اِستعمال ہونے والی مطبوعات کو موبائل یا ٹیبلٹ وغیرہ پر ڈاؤن‌لوڈ کر سکتے ہیں۔‏ پھر ہم کہیں بھی اور کسی بھی وقت اِن مطبوعات کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور اگر کبھی ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم اِنہیں پڑھ سکتے ہیں یا اِن کی آڈیو ریکارڈنگ سُن سکتے ہیں۔‏ کچھ بہن بھائی ملازمت کی جگہ پر یا سکول میں وقفے کے دوران یا پھر سفر کرتے وقت ‏”‏جےڈبلیو لائبریری“‏ ایپ کے ذریعے مطالعہ کرتے ہیں۔‏ ‏”‏یہوواہ کے گواہوں کی آن‌لائن لائبریری (‏ٹریڈمارک)‏“‏ کی مدد سے ہم مضمون کے ایسے نکتوں پر تحقیق کر سکتے ہیں جن کے بارے میں ہم زیادہ جاننا چاہتے ہیں۔‏

آپ اِجلاسوں کی تیاری کے لیے کب وقت نکالتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف نمبر 14-‏16 کو دیکھیں۔‏)‏ *

17.‏ ‏(‏الف)‏ ایک سے زیادہ جواب تیار کرنے کا کیا فائدہ ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ نے ویڈیو ‏”‏یہوواہ کے دوست بنیں—‏اِجلاسوں کے لیے جواب تیار کریں‏“‏ سے کیا سیکھا ہے؟‏

17 اگر ممکن ہو تو ہر حصے یا مضمون کے لیے ایک سے زیادہ جواب تیار کریں۔‏ آپ کو ایسا کیوں کرنا چاہیے؟‏ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جب آپ ہاتھ کھڑا کریں تو آپ سے جواب نہ پوچھا جائے۔‏ بہت ممکن ہے کہ دوسرے بھی اُسی سوال پر ہاتھ کھڑا کریں اور شاید حصے یا مضمون کی پیشوائی کرنے والا بھائی اُن میں سے کسی سے جواب پوچھے۔‏ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اِجلاس کو وقت پر ختم کرنے کی خاطر وہ بھائی کسی نکتے پر زیادہ تبصرے نہ لے پائے۔‏ لہٰذا اگر آپ سے شروع میں کوئی جواب نہیں پوچھا جاتا تو اِس بات کو دل پر نہ لیں اور نہ ہی بےحوصلہ ہوں۔‏ اگر آپ ایک سے زیادہ جواب تیار کریں گے تو آپ کے پاس بات‌چیت میں زیادہ حصہ لینے کا موقع ہوگا۔‏ آپ اِجلاس کے دوران کوئی آیت پڑھنے کی تیاری بھی کر سکتے ہیں۔‏ لیکن اگر آپ کے لیے ممکن ہے تو اپنے لفظوں میں کوئی جواب بھی تیار کریں۔‏ *

18.‏ ہمیں مختصر جواب کیوں دینے چاہئیں؟‏

18 مختصر جواب دیں۔‏ حوصلہ‌افزا تبصرے عام طور پر چھوٹے اور سادہ ہوتے ہیں۔‏ اِس لیے اِس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کے جواب مختصر ہوں۔‏ اِنہیں 30 سیکنڈ کے اندر اندر ختم کرنے کی کوشش کریں۔‏ (‏امثا 10:‏19؛‏ 15:‏23‏)‏ اگر آپ بہت سالوں سے اِجلاسوں میں جواب دے رہے ہیں تو آپ اپنے جوابوں کو مختصر رکھنے سے دوسروں کے لیے اچھی مثال قائم کر سکتے ہیں۔‏ اگر آپ لمبے چوڑے اور پیچیدہ جواب دیں گے تو شاید دوسرے یہ سوچنے لگیں کہ اُن میں آپ جیسے جواب دینے کی صلاحیت نہیں ہے اور یوں وہ مایوس ہو کر جواب دینے سے ہچکچائیں۔‏ اِس کے علاوہ اگر مختصر جواب دیے جاتے ہیں تو زیادہ لوگوں کو اِجلاس میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے۔‏ اگر آپ سے سب سے پہلے کسی سوال کا جواب پوچھا جاتا ہے تو سادہ اور براہِ‌راست جواب دیں۔‏ پیراگراف میں دیے گئے تمام نکتوں کو بیان نہ کریں۔‏ جب پیراگراف کے مرکزی خیال پر بات ہو جاتی ہے تو آپ اِس میں دیے گئے دوسرے نکتوں پر بات کر سکتے ہیں۔‏—‏بکس ”‏ مَیں کیا جواب دے سکتا ہوں؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔‏

19.‏ مضمون کی پیشوائی کرنے والا بھائی آپ کی مدد کیسے کر سکتا ہے لیکن اِس کے لیے آپ کو کیا کرنا چاہیے؟‏

19 مضمون کی پیشوائی کرنے والے بھائی کو بتائیں کہ آپ فلاں پیراگراف پر جواب دینا چاہتے ہیں۔‏ اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو آپ کو اِجلاس شروع ہونے سے کافی پہلے اُس بھائی کو اِس بارے میں بتانا چاہیے۔‏ اور پھر جب اُس پیراگراف پر سوال پوچھا جاتا ہے تو فوراً اپنا ہاتھ اُونچا کھڑا کریں تاکہ وہ بھائی اِسے دیکھ سکے۔‏

20.‏ ہمارے اِجلاس کس لحاظ سے ایسے ہی ہیں جیسے اچھے دوست مل کر کھانا کھاتے ہیں؟‏

20 اِجلاسوں کو ایسے ہی خیال کریں جیسے اچھے دوست مل کر کھانا کھاتے ہیں۔‏ فرض کریں کہ کلیسیا کے بہن بھائیوں نے کوئی پارٹی رکھی ہے اور آپ سے کہا ہے کہ آپ اِس میں کچھ بنا کر لائیں۔‏ آپ کیا کریں گے؟‏ شاید آپ اِس حوالے سے تھوڑے فکرمند ہوں لیکن آپ پوری کوشش کریں گے کہ آپ کچھ ایسا بنا کر لے جائیں جسے کھانے میں سب کو مزہ آئے۔‏ اِجلاسوں پر یہوواہ ہمارا میزبان ہوتا ہے اور وہ وہاں بہت سی اچھی چیزوں کا بندوبست کرتا ہے۔‏ (‏زبور 23:‏5؛‏ متی 24:‏45‏)‏ وہ اُس وقت بڑا خوش ہوتا ہے جب ہم وہاں کوئی چھوٹا سا مگر اپنی صورتحال کے مطابق بہترین تحفہ لے کر جاتے ہیں۔‏ اِس لیے اِجلاسوں کی اچھی تیاری کریں اور اِن میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں۔‏ یوں آپ یہوواہ کی میز سے نہ صرف کھا پائیں گے بلکہ کچھ ایسا لے کر بھی جائیں گے جس سے دوسروں کو فائدہ ہوگا۔‏

گیت نمبر 2‏:‏ یہوواہ تیرا نام ہے

^ پیراگراف 5 زبورنویس داؤد کی طرح ہم سب یہوواہ سے پیار کرتے ہیں اور اُس کی ستائش کرنے سے خوشی پاتے ہیں۔‏ ہمیں اُس وقت خدا کے لیے اپنی محبت کا اِظہار کرنے کا خاص موقع ملتا ہے جب ہم کلیسیا کے ساتھ مل کر عبادت کرتے ہیں۔‏ لیکن ہم میں سے کچھ کو اِجلاسوں میں جواب دینا مشکل لگتا ہے۔‏ اگر آپ کو بھی اِس مسئلے کا سامنا ہے تو اِس مضمون کے ذریعے آپ یہ سمجھ پائیں گے کہ آپ کو اِجلاسوں میں جواب دینے سے ڈر کیوں لگتا ہے اور آپ اِس ڈر پر کیسے قابو پا سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 17 jw.org پر ویڈیو ‏”‏یہوواہ کے دوست بنیں—‏اِجلاسوں کے لیے جواب تیار کریں‏“‏ کو دیکھیں۔‏ حصہ ”‏پاک کلام کی تعلیمات“‏ کے تحت ”‏بچے‏“‏ پر جائیں۔‏

^ پیراگراف 63 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک کلیسیا کے ارکان خوشی سے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ کے مطالعے میں حصہ لے رہے ہیں۔‏

^ پیراگراف 65 تصویر کی وضاحت‏:‏ پچھلی تصویر میں دِکھائے گئے کچھ بہن بھائی جو ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ کے مطالعے میں حصہ لے رہے تھے۔‏ حالانکہ اُن سب کے حالات ایک دوسرے سے فرق ہیں لیکن وہ وقت نکال کر اِجلاس کی تیاری کر رہے ہیں۔‏