مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

پیزا—‏ایک لذیذ کھانے کی داستان

پیزا—‏ایک لذیذ کھانے کی داستان

پیزا‏—‏ایک لذیذ کھانے کی داستان

اٹلی سے جاگو!‏ کا نامہ‌نگار

کہا جاتا ہے کہ بادشاہ فرڈیننڈ اوّل (‏۱۷۵۱-‏۱۸۲۵)‏ کو پیزا کھانے کا بڑا شوق تھا۔‏ لیکن ملکہ نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ شاہی اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں میں سے کوئی بھی پیزا نہ کھائے۔‏ لہٰذا بادشاہ فرڈیننڈ اپنا بھیس بدل کر چوری‌چھپے شہر نیپلز کے غریب‌ترین علاقے میں گئے تاکہ وہ وہاں جی‌بھر کر پیزا کھا سکیں۔‏

بادشاہ فرڈیننڈ اگر آج زندہ ہوتے تو اُنہیں پیزا کھانے کے لئے اتنا تردّد نہ کرنا پڑتا۔‏ آج اٹلی میں تقریباً ۰۰۰،‏۳۰ پیزا کی دُکانیں ہیں۔‏ اٹلی میں ایک سال میں اتنے پیزے بنائے جاتے ہیں کہ سال میں ہر باشندے کے حصے میں ۴۵ پیزے آتے ہیں۔‏

پیزا کی ادنیٰ شروعات

خیال کِیا جاتا ہے کہ ۱۷۲۰ عیسوی کے لگ‌بھگ شہر نیپلز کے لوگوں نے پیزا بنانا شروع کِیا۔‏ اُس زمانے میں پیزا غریب لوگوں کا کھانا سمجھا جاتا تھا۔‏ اِسے عام طور پر باہر سڑکوں پر کھایا جاتا تھا۔‏ پیزا بیچنے والے آواز لگاتے ہوئے سڑکوں پر پھرتے تھے۔‏ اُن کے سر پر تانبے کی گہری تھالی ہوتی تھی جس میں وہ پیزا کو گرم رکھتے تھے۔‏

بادشاہ فرڈیننڈ اوّل نے آخرکار شاہی خاندان کے سامنے اقرار کِیا کہ وہ پیزا کھانے کے شوقین ہیں۔‏ جلد ہی شاہی اور اعلیٰ طبقے کے لوگ بھی اِس لذیذ کھانے سے لطف اندوز ہونے کے لئے پیزا کی دُکانوں پر جانے لگے۔‏ بادشاہ فرڈیننڈ اوّل کے پوتے بادشاہ فرڈیننڈ دوم پیزا کے اتنے شوقین تھے کہ اُنہوں نے ۱۸۳۲ میں اپنے محل میں ایک تندور بنوایا تاکہ وہ اپنے مہمانوں کو پیزا کھلا سکیں۔‏

کیا پیزا غذائیت‌بخش ہے؟‏

آجکل خاص طور پر جوان لوگ پیزا کھانے کے شوقین ہیں۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ پیزا تب ہی غذائیت‌بخش ہوتا ہے جب اِسے بنانے میں اچھے اجزا استعمال کئے جاتے ہیں۔‏ پیزا میں نشاستے،‏ پروٹین،‏ روغن،‏ وٹامن،‏ معدنیات وغیرہ صحیح مقدار میں شامل ہونے چاہئیں۔‏ پیزا بناتے وقت زیتون کا تیل استعمال کرنا صحت‌بخش ہوتا ہے۔‏ یہ تیل جسم میں ایک ایسے کولیسٹرول کو پیدا کرتا ہے ”‏جو شریانوں کو صاف کرتا ہے۔‏“‏

اگر پیزا کو اچھی طرح سے پکایا جائے تو یہ آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے۔‏ اِس کی وجہ یہ ہے کہ پیزا کے میدے کو خوب گوندھا جاتا ہے جس سے اِس میں پانی اچھی طرح سے جذب ہو جاتا ہے۔‏ پیزا میں ایسے نشاستے پائے جاتے ہیں جو جلد ہی سیر ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔‏ یوں حد سے زیادہ کھا لینے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔‏

اگلی بار جب آپ پیزا کھانے بیٹھیں تو ایک پل کے لئے اُس کی دلچسپ تاریخ کے بارے میں سوچیں۔‏ ہم بادشاہ فرڈیننڈ کے واقعی شکرگزار ہیں کہ اُنہوں نے اپنے شوق کو راز نہیں رکھا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر بکس/‏تصویر]‏

▪ پیزا تب ہی سب سے لذیذ ہوتا ہے جب اُسے ایک ایسے تندور میں پکایا جائے جس میں لکڑی کو جلایا جاتا ہے۔‏ اِس سے جو دھواں اُٹھتا ہے اِس سے پیزا خوشبودار ہو جاتا ہے اور پیزا کے نیچے جو راکھ چپک جاتی ہے اِس سے اُس کی لذت بڑھ جاتی ہے۔‏

▪ سن ۱۹۹۰ میں دُنیا کا سب سے بڑا گول پیزا تیار کِیا گیا۔‏ اِس کا عرض ۳۷ میٹر [‏۱۲۲ فٹ]‏ تھا اور اِس کا وزن ۱۲ ٹن سے زیادہ تھا۔‏

▪ روایتی طور پر پیزا بنانے کے لئے گندھے ہوئے میدے کے پیڑے بنا کر انہیں چپٹا کِیا جاتا ہے اور پھر اُنہیں ہوا میں پھینک کر گھمایا جاتا ہے۔‏ اس طرح یہ ایک ایسی روٹی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس کے کنارے اُبھرے ہوتے ہیں اور اِس پر ٹماٹر،‏ سبزی،‏ وغیرہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر صرف تصویر ہے]‏