مواد فوراً دِکھائیں

گھریلو زندگی کو خوش‌گوار بنائیں

ناکامیوں سے نمٹنے میں اپنے بچوں کی مدد کیسے کریں؟‏

ناکامیوں سے نمٹنے میں اپنے بچوں کی مدد کیسے کریں؟‏

 آپ کے بچوں کو کبھی نہ کبھی ناکامی کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا۔ اور اِس کی وجہ سے وہ مایوس ہو سکتے ہیں۔ اُس وقت آپ اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

 اِن باتوں کو ذہن میں رکھیں

 ناکامی زندگی کا حصہ ہے۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ہم سب بار بار غلطی کرتے ہیں۔“‏ (‏یعقوب 3:‏2‏)‏ بچوں سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ لیکن ناکامیوں اور غلطیوں کا فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ اِن سے بچے مسئلوں سے نمٹنا سیکھ سکتے ہیں۔ لازمی نہیں کہ بچوں میں پیدائشی طور پر مسئلوں سے نمٹنے کی صلاحیت ہو لیکن وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں۔ لاؤرا نامی ایک عورت نے کہا:‏ ”‏مَیں نے اور میرے شوہر نے دیکھا ہے کہ جب بچے ناکامیوں سے مُنہ موڑنے کی بجائے اِن کا سامنا کرنا سیکھتے ہیں تو اِس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ وہ سیکھ لیتے ہیں کہ وہ اُس وقت خود کو کیسے سنبھال سکتے ہیں جب اُن کی اُمیدیں پوری نہیں ہوتیں۔“‏

 بہت سے بچے صحیح طرح ناکامی سے نمٹ نہیں پاتے۔‏ بہت سے بچے ناکامی سے نمٹنا نہیں سیکھ پاتے کیونکہ اُن کے ماں باپ اُنہیں ہمیشہ یہ احساس دِلاتے ہیں کہ غلطی اُن کی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جب کسی بچے کے اچھے نمبر نہیں آتے تو کچھ ماں باپ سارے کا سارا اِلزام ٹیچر پر ڈال دیتے ہیں۔ اگر کسی بچے کی اپنے دوست سے لڑائی ہو جاتی ہے تو ماں باپ صاف صاف کہتے ہیں کہ ساری غلطی دوسرے بچے کی ہے۔‏

 ذرا سوچیں کہ اگر ماں باپ اپنے بچوں کو اُن کی غلطیوں کے نتائج سے بچاتے رہیں گے تو بچے اپنی غلطی کو ماننا اور اِسے ٹھیک کرنا کیسے سیکھیں گے؟‏

 آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏

  •   بچوں کو سکھائیں کہ وہ جیسا کریں گے، ویسا بھریں گے۔‏

     پاک کلام کا اصول:‏ ”‏اِنسان جو کچھ بوتا ہے، وہی کاٹتا ہے۔“‏—‏گلتیوں 6:‏7‏۔‏

     ہر کام کا انجام ہوتا ہے۔ نقصان کی قیمت ہوتی ہے۔ غلطیوں کے بُرے نتائج ہوتے ہیں۔ بچوں کو یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے۔ اُنہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جو نقصان ہوا ہے، اُس کے ذمے‌دار کسی حد تک وہ بھی ہیں۔ اِس لیے اپنے بچوں کی غلطیوں پر پردہ نہ ڈالیں اور نہ ہی سارا اِلزام دوسروں کودیں۔ اِس کی بجائے بچے کی عمر کے حساب سے اُسے مناسب حد تک اپنی غلطی کے نتائج بھگتنے دیں۔ بے‌شک بچے کو پتہ ہونا چاہیے کہ اُسے اپنی کس غلطی کی وجہ سے مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‏

  •   مسئلے کا حل تلاش کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کریں۔‏

     پاک کلام کا اصول:‏ ”‏صادق سات بار گِرتا ہے اور پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔“‏—‏امثال 24:‏16‏۔‏

     ناکامی کی وجہ سے بہت زیادہ دُکھ پہنچ سکتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ ایسے بھی مسئلے ہیں جو ناکامی سے بڑے ہوتے ہیں۔ بچے کی مدد کریں کہ وہ یہ نہ سوچتا رہے کہ جو کچھ ہوا ہے، وہ صحیح نہیں ہوا۔ اِس کی بجائے اُسے سمجھائیں کہ وہ اِس بات پر توجہ دے کہ وہ اگلی بار ناکامی سے کیسے بچ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا بیٹا اِمتحان میں فیل ہو جاتا ہے تو یہ سمجھنے میں اُس کی مدد کریں کہ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ وہ اَور بھی دل لگا کر پڑھائی کرے اور اگلی بار پاس ہونے کی پوری کوشش کرے۔ (‏امثال 20:‏4‏)‏ اگر آپ کی بیٹی کا اپنی دوست سے کسی بات پر جھگڑا ہو جاتا ہے تو یہ سمجھنے میں اُس کی مدد کریں کہ غلطی چاہے جس کی بھی تھی، وہ خود معافی مانگ کر مسئلے کو حل کر سکتی ہے۔—‏رومیوں 12:‏18؛‏ 2-‏تیمُتھیُس 2:‏24‏۔‏

  •   بچوں کو خاکسار بننا سکھائیں۔‏

     پاک کلام کا اصول:‏ ”‏مَیں .‏.‏.‏ آپ سب سے کہتا ہوں کہ خود کو اپنی حیثیت سے زیادہ اہم نہ سمجھیں۔“‏—‏رومیوں 12:‏3‏۔‏

     اگر آپ اپنے بچے سے کہتے ہیں کہ فلاں کام میں اُس سے بہتر اَور کوئی نہیں تو یہ نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی فائدہ‌مند۔ یاد رکھیں کہ جو بچے پڑھائی میں بہت اچھے ہوتے ہیں، وہ بھی ہر بار اِمتحان میں پورے نمبر نہیں لے پاتے۔ اور جو بچے کوئی کھیل بہت اچھی طرح کھیلتے ہیں، وہ بھی ہر بار اُس میں جیتتے نہیں۔ دراصل جو بچے خود سے حد سے زیادہ توقع نہیں کرتے، وہ ناکامیوں سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں۔‏

     پاک کلام میں کہا گیا ہے کہ مشکلات ہمیں مضبوط بناتی ہیں اور ہم میں ثابت‌قدمی پیدا کرتی ہیں۔ (‏یعقوب 1:‏2-‏4‏)‏ یہ بات سچ ہے کہ ناکامیوں کی وجہ سے بہت دُکھ ہوتا ہے۔ لیکن اپنے بچوں کی یہ سمجھنے میں مدد کریں کہ وہ ناکامیوں کی وجہ سے حد سے زیادہ مایوس نہ ہو جائیں۔‏

     بچوں کو یہ سکھانا کہ وہ مسئلوں سے کیسے نمٹ سکتے ہیں، ایسے ہی ہے جیسے کسی کو کوئی ہنر سکھانا۔ اور اِن دونوں میں وقت لگتا ہے اور بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ جب ماں باپ چھوٹی عمر سے ہی اپنے بچوں کو مسئلوں سے نمٹنا سکھاتے ہیں تو اِس کا بچوں کو اُس وقت بہت فائدہ ہوتا ہے جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک کتاب جو کہ بچوں کی پرورش کے حوالے سے ہے، میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏وہ نوجوان جن کو اپنے مسئلوں سے نمٹنا آتا ہے، وہ اِتنی جلدی جذبات میں آ کر کوئی غلط قدم نہیں اُٹھاتے۔ جب اُن کی زندگی میں کچھ نیا ہوتا ہے یا کچھ ایسا جس کی اُنہیں توقع بھی نہیں ہوتی تو وہ آسانی سے خود کو اِس کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔“‏ ‏(‏لیٹنگ گو وِد لَو اینڈ کانفیڈینس)‏ بے‌شک ایسے بچے زندگی میں آگے چل کر بھی مسئلوں سے اچھی طرح نمٹ پائیں گے۔‏

 مشورہ:‏ اچھی مثال بنیں۔ یاد رکھیں کہ آپ جس طرح سے مسئلوں کا سامنا کرتے ہیں، اُس سے آپ کے بچے سیکھیں گے کہ اُنہیں اپنے مسئلوں کا سامنا کیسے کرنا ہے۔‏