کیا آپ کو معلوم ہے؟
یسوع مسیح کوڑھیوں کے ساتھ جس طرح پیش آئے، اُس میں خاص بات کیا تھی؟
قدیم زمانے میں کوڑھ کی بیماری کی ایک خاص قسم بہت عام تھی اور یہودی اِس میں مبتلا ہونے سے بہت ڈرتے تھے۔ اِس خطرناک بیماری کی وجہ سے مریض کا اعصابی نظام بُری طرح متاثر ہوتا تھا، اُس کے اعضا کو بہت نقصان پہنچتا تھا اور اُس کی شکل بگڑ جاتی تھی۔ اُس زمانے میں اِس بیماری کا کوئی علاج نہیں تھا۔ جو شخص اِس بیماری میں مبتلا ہوتا تھا، اُسے دوسروں سے الگ رکھا جاتا تھا اور اُسے چلّا چلّا کر دوسروں کو اپنی بیماری کے بارے میں بتانا پڑتا تھا۔—احبار 13:45، 46۔
پاک کلام میں کوڑھیوں کے حوالے سے جو قانون درج تھے، یہودیوں کے مذہبی رہنماؤں نے اُنہیں اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا تھا اور یوں کوڑھیوں کی زندگی بہت مشکل بنا دی تھی۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے یہ قانون بنا رکھا تھا کہ کوڑھ کا مریض کسی شخص سے 4 ہاتھ یعنی تقریباً 2 میٹر (6 فٹ) دُور رہے اور اگر ہوا چل رہی ہو تو وہ 100 ہاتھ یعنی تقریباً 45 میٹر (150 فٹ) دُور رہے۔ اِس کے علاوہ یہودیوں کے کچھ مذہبی عالموں نے پاک صحیفوں کے اِس حکم کا بھی غلط مطلب نکال لیا تھا کہ کوڑھی ”لشکرگاہ کے باہر“ رہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس حکم کا مطلب یہ ہے کہ کوڑھیوں کو شہر سے بالکل باہر نکال دیا جائے۔ لہٰذا جب کوئی مذہبی رہنما کسی کوڑھی کو شہر کے اندر دیکھ لیتا تو اُسے پتھر مارتا اور کہتا: ”یہاں سے چلے جاؤ، دوسروں کو ناپاک نہ کرو۔“
لیکن یسوع مسیح کوڑھیوں کے ساتھ بہت پیار سے پیش آئے۔ اُنہوں نے کوڑھیوں کو دُور بھگانے کی بجائے اُنہیں چُھوا، یہاں تک کہ اُنہیں شفا بھی دی۔—متی 8:3۔
یہودیوں کے مذہبی رہنما کن وجوہات کی بِنا پر طلاق کی اِجازت دیتے تھے؟
پہلی صدی عیسوی میں مذہبی رہنما طلاق کے بارے میں فرق فرق رائے رکھتے تھے۔ اِسی وجہ سے ایک موقعے پر کچھ فریسیوں نے یسوع مسیح کا اِمتحان لینے کے لیے اُن سے پوچھا: ”کیا اپنی بیوی کو کسی بھی وجہ سے طلاق دینا جائز ہے؟“—متی 19:3۔
موسیٰ کی شریعت کے مطابق اگر کوئی شوہر اپنی بیوی میں کوئی ”بیہودہ بات“ پاتا تو وہ اُسے طلاق دے سکتا تھا۔ (اِستثنا 24:1) یسوع مسیح کے زمانے میں یہودیوں کے دو مذہبی اِدارے تھے جن میں شریعت کی اِس بات کے حوالے سے دو فرق فرق نظریے سکھائے جاتے تھے۔ ایک اِدارے کا نام شمائے تھا جس میں شریعت کے حکموں پر سختی سے عمل کرنے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اِس اِدارے کے مطابق اِستثنا 24:1 کا مطلب یہ تھا کہ طلاق صرف زِناکاری کی وجہ سے دی جا سکتی ہے۔ دوسرے اِدارے کا نام ہالیل تھا جس کے مطابق طلاق کسی بھی وجہ کی بِنا پر دی جا سکتی تھی، چاہے وہ وجہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر اگر شوہر کو بیوی کا بنایا ہوا کھانا اچھا نہ لگتا یا اُسے کوئی اَور عورت پسند آ جاتی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا تھا۔
یسوع مسیح نے فریسیوں کے سوال کا کیا جواب دیا؟ اُنہوں نے واضح طور پر کہا: ”جو شخص اپنی بیوی کو حرامکاری کے علاوہ کسی اَور وجہ سے طلاق دیتا ہے اور دوسری عورت سے شادی کرتا ہے، وہ زِنا کرتا ہے۔“—متی 19:6، 9۔