مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دُنیا کی سب سے تیز رفتار ٹرین

دُنیا کی سب سے تیز رفتار ٹرین

دُنیا کی سب سے تیز رفتار ٹرین

ہانگ‌کانگ سے جاگو!‏ کا نامہ‌نگار

چین کے شہر شنگھائی کے جدید طرز کے سٹیشن پر مسافر ایک خوبصورت نئی ٹرین میں سوار ہونے والے ہیں۔‏ سفر شروع ہونے سے پہلے ہی اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ٹرین انوکھی ہے۔‏ ٹرین بغیر کسی جھٹکے اور شور کے چلنے لگتی ہے۔‏ جلد ہی وہ ۴۳۰ کلومیٹر [‏۲۶۵ میل]‏ فی گھنٹا کی رفتار کو چُھو لیتی ہے۔‏ یہ دُنیا کی سب سے تیزرفتار ٹرین ہے جو باقاعدگی سے مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچاتی ہے۔‏ یہ ٹرین شنگھائی سے پوڈونگ انٹرنیشنل ائیرپورٹ تک ۳۰ کلومیٹر [‏۱۹ میل]‏ کا فاصلہ ۸ منٹ میں طے کرتی ہے۔‏ لیکن اِس ٹرین کی سب سے حیرت‌انگیز بات یہ ہے کہ یہ پہیوں کے بغیر چلتی ہے۔‏

شنگھائی سے پوڈونگ تک چلنے والی اِس ٹرین کو میگ‌لیو ٹرین کہتے ہیں۔‏ یہ لفظ انگریزی زبان میں ایک ایسی ٹرین کی طرف اشارہ کرتا ہے جو مقناطیسی قوت سے پٹری پر منڈلاتی ہے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ ٹرین پٹری کو نہیں چُھوتی۔‏ اس کے علاوہ اِس ٹرین کا کوئی ڈرائیور نہیں ہوتا بلکہ اِس میں ایسے کمپیوٹر موجود ہیں جو کنٹرول سٹیشن کو لگاتار اطلاع کرتے ہیں کہ ٹرین کہاں ہے اور کس رفتار سے چل رہی ہے۔‏ کنٹرول سٹیشن میں آپریٹر کمپیوٹر کے ذریعے ٹرین کو چلاتے ہیں۔‏

میگ‌لیو کی خصوصیات

اِس ٹرین اور اسکی پٹری کو تعمیر کرنا آسان نہیں تھا۔‏ مثال کے طور پر ٹرین اور پٹری کے درمیان فاصلہ بہت کم ہے اور اِس فاصلے میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔‏ لیکن شنگھائی کی مٹی نرم ہے جس وجہ سے پٹریاں دھنس جاتی ہیں۔‏ اسکے علاوہ پٹری کی تعمیر کیلئے کنکریٹ استعمال ہوا ہے جس پر سردی اور گرمی کا اثر پڑتا ہے۔‏ اسلئے پٹریوں کو اسطرح تعمیر کِیا گیا ہے کہ وہ اِن تبدیلیوں کے باوجود ہموار رہیں۔‏

میگ‌لیو ٹرین میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے اِس کے بہت سے فائدے ہیں۔‏ عام ریل‌گاڑیوں میں انجن اور پہیوں کا شور ہوتا ہے لیکن میگ‌لیو ٹرین میں کوئی ایسا شور نہیں ہوتا۔‏ یہ دھواں بھی خارج نہیں کرتی۔‏ پٹری اور ٹرین کی کم ہی مرمت کرنی پڑتی ہے۔‏ گاڑی کی نسبت میگ‌لیو ٹرین تین گُنا کم اور ہوائی‌جہاز کی نسبت ۵ گُنا کم توانائی استعمال کرتی ہے۔‏ دلچسپی کی بات ہے کہ یہ ٹرین پٹری پر منڈلانے کے لئے اتنی توانائی استعمال نہیں کرتی جتنی کہ اِس کے اندر اے سی چلانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔‏ چونکہ اِس ٹرین کے پہیے نہیں ہیں اس لئے یہ ایسے پہاڑوں کو بھی عبور کر سکتی ہے جن کی ڈھلوان زیادہ ہو اور یہ نہایت ہی تنگ موڑ بھی کاٹ سکتی ہے۔‏ لہٰذا،‏ پٹری بچھاتے وقت اکثر پُل اور سُرنگیں بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‏

اگر میگ‌لیو ٹرین کے اتنے فائدے ہیں تو آجکل زیادہ ممالک اِسے کیوں نہیں بنا رہے ہیں؟‏ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اِسے بنانے کا خرچہ بہت زیادہ ہے۔‏ چین کی حکومت نے شنگھائی اور بیجنگ کے درمیان میگ‌لیو لائن تعمیر کرنے کے منصوبے کو فی‌الحال رد کر دیا ہے کیونکہ عام تیزگام کی لائن کی نسبت اِسے تعمیر کرنے کا خرچہ دُگنا ہوتا ہے۔‏ اس کے علاوہ میگ‌لیو ٹرین دوسری ریل‌گاڑیوں کی پٹریوں پر نہیں چلائی جا سکتی ہے۔‏

شنگھائی میں چلنے والی میگ‌لیو ٹرین کے لئے جرمن ٹیکنالوجی استعمال ہوئی ہے اور اِس ٹیکنالوجی میں بہتری لانے کے لئے جرمنی،‏ جاپان اور دوسرے ممالک میں تحقیق جاری ہے۔‏ دسمبر ۲۰۰۳ میں جاپان میں ایک میگ‌لیو ٹرین نے ۵۸۱ کلومیٹر [‏۳۶۱ میل]‏ فی گھنٹا کی حد رفتار کا ریکارڈ قائم کِیا۔‏ لیکن یہ ٹرین مسافر نہیں بٹھاتی۔‏ آج تک مسافروں کو بٹھانے والی واحد میگ‌لیو لائن شنگھائی اور پوڈونگ کے درمیان ہے۔‏

اِس ٹرین کی ہر بوگی میں رفتار کی پیمائش کرنے والی گھڑیاں ہیں۔‏ جوں ہی میگ‌لیو ٹرین پوڈونگ سے شنگھائی کے لئے روانہ ہوتی ہے،‏ تمام مسافروں کی آنکھیں اِن گھڑیوں پر جم جاتی ہیں۔‏ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ٹرین کب حد رفتار کو چُھوتی ہے۔‏ اس لئے زیادہ‌تر مسافر پہلی بار اِس ٹرین پر سفر کرتے وقت باہر کے مناظر نہیں دیکھ پاتے۔‏ اِس ٹرین پر دوبارہ سفر کرتے وقت جب وہ باہر جھانکتے ہیں تو اُن کی آنکھوں کے سامنے مناظر بڑی تیزی سے گزرتے ہیں۔‏ تب ہی اُن کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ٹرین کتنی تیزرفتار ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ میگ‌لیو ٹرین کو ”‏بِن پَر کا ہوائی‌جہاز“‏ کیوں کہا جاتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر بکس/‏ڈائیگرام]‏

یہ ٹرین مقناطیسی قوت سے کیسے چلتی ہے؟‏

ہر بوگی کے نیچے برقی مقناطیس لگائے گئے ہیں ‏(‏۱)‏‏۔‏ پٹری کے نچلے حصے پر بھی برقی مقناطیس پائے جاتے ہیں ‏(‏۲)‏‏۔‏ یہ دونوں مقناطیس مل کر ٹرین کو اِس حد تک اُٹھاتے ہیں کہ اِن کے درمیان صرف آدھے اِنچ کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔‏ دوسرے مقناطیس ٹرین کی بوگیوں کے دونوں طرف لگائے گئے ہیں تاکہ بوگیاں پٹری پر سیدھی رہیں ‏(‏۳)‏‏۔‏ پٹری کے اندر ایسے مقناطیس بھی لگائے گئے ہیں جو ٹرین کو آگے کی طرف کھینچتے ہیں ‏(‏۴)‏‏۔‏

توانائی کو بچانے کے لئے کنٹرول سٹیشن پٹری کے ایک حصہ کو صرف اُس وقت بجلی مہیا کرتا ہے جب اُس پر ٹرین گزر رہی ہوتی ہے ‏(‏۵)‏‏۔‏ جب ٹرین اپنی رفتار تیز کرتی ہے یا اُونچائی پر چڑھتی ہے تو اِن مقناطیسوں کو زیادہ بجلی مہیا کی جاتی ہے۔‏ جب ٹرین کو رفتار کم کرنی پڑتی ہے یا اُلٹی طرف جانے کی ضرورت ہوتی ہے تو مقناطیس ٹرین کو اُلٹی طرف کھینچتے ہیں۔‏

کیا یہ ٹرین محفوظ ہے؟‏

حالانکہ میگ‌لیو ٹرین بڑی تیزی سے چلتی ہے لیکن ٹرین کی بوگی کے کنارے پٹری کو اِس طرح گھیر لیتے ہیں ‏(‏۶)‏ کہ اِس کا پٹری سے اُترنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔‏ مسافروں کو حفاظتی بیلٹ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‏ لہٰذا وہ چلتی ہوئی ٹرین میں بھی چل‌پھر سکتے ہیں۔‏ بجلی کے چلے جانے کی صورت میں خاص بیٹریاں ٹرین کے مقناطیس کو چلاتی ہیں اور اِس کو ۱۰ کلومیٹر [‏۶ میل]‏ فی گھنٹا کی رفتار پر لے آتی ہیں۔‏ پھر ٹرین جھٹکے کے بغیر پٹری پر آہستہ سے رُک جاتی ہے۔‏

کیا ٹرین کے مقناطیس ایسے لوگوں کے لئے نقصاندہ ہیں جن کے دل میں پیس‌میکر لگا ہے؟‏ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ اِن مقناطیسوں کا اثر اِتنا نہیں ہے کہ یہ صحت کے لئے نقصاندہ ثابت ہو سکیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶،‏ ۱۷ پر تصویریں]‏

اِس ٹرین کی رفتار ۴۳۰ کلومیٹر [‏۲۶۵ میل]‏ فی گھنٹا کو چُھو لیتی ہے

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر کا حوالہ]‏

Pages 16 and 17: All photos and

diagrams: © Fritz Stoiber Productions

Courtesy Transrapid​/‏

International GmbH & Co. KG