مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 15

اُنہوں نے خدا کے بندوں کے دِفاع کی خاطر قدم اُٹھایا

اُنہوں نے خدا کے بندوں کے دِفاع کی خاطر قدم اُٹھایا

1-‏3.‏ ‏(‏الف)‏ اپنے شوہر کے پاس جاتے وقت آستر کے دل میں ہول کیوں اُٹھ رہے ہوں گے؟‏ (‏ب)‏ ہم آستر کے حوالے سے کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

آستر کا دل خوف سے دھک دھک کر رہا تھا۔‏ وہ شہر سوسن کے محل میں موجود تھیں اور اِس کے اندرونی صحن کی طرف جا رہی تھیں۔‏ چلتے چلتے جب اُن کی نظر اپنے اِردگِرد کے ماحول پر پڑ رہی تھی تو اُن کے لیے اپنے دل کی دھڑکنوں پر قابو پانا اَور مشکل ہوتا جا رہا تھا۔‏ دراصل اِس محل کو بنایا ہی ایسے گیا تھا کہ اِسے دیکھنے والوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی تھیں۔‏ اِس کی دیواریں رنگ‌برنگی چمک‌دار اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں اور اِن پر شیروں،‏ تیراندازوں اور پَروں والے بیلوں کی تصویریں کندہ کی گئی تھیں۔‏ اِس کے علاوہ اِس میں پتھر کے خوب‌صورت ستون اور بڑے بڑے مجسّمے تعمیر کیے گئے تھے۔‏ اِس محل کو ایک چبوترے کے اُوپر بنایا گیا تھا۔‏ اِس کے قریب زاگرس کے برف‌پوش پہاڑ واقع تھے اور اِس سے دریائےکرخہ کے صاف شفاف پانی کا نظارہ کِیا جا سکتا تھا۔‏ اِس شان‌دار محل کو اِس خاص جگہ اور طرز پر بنانے کا مقصد یہ تھا کہ دیکھنے والوں کو فارس کی سلطنت کے حکمران کی طاقت کا اندازہ ہو سکے جو خود کو عظیم بادشاہ کہتا تھا۔‏ وہ آستر کا شوہر تھا اور آستر اُسی سے ملنے جا رہی تھیں۔‏

2 یہ سوچنے والی بات ہے کہ آستر،‏ اخسویرس بادشاہ کی بیوی کیسے بن گئی تھیں۔‏ * بےشک آستر جیسی مضبوط ایمان والی یہودی لڑکی نے ایسے شخص سے شادی کرنے کی توقع نہیں کی ہوگی۔‏ اخسویرس،‏ ابراہام کی طرح نہیں تھا جنہوں نے خاکساری سے خدا کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیوی سارہ کی بات مانی تھی۔‏ (‏پید 21:‏12‏)‏ وہ آستر کے خدا یہوواہ کی شریعت کا یا تو بہت کم یا بالکل بھی علم نہیں رکھتا تھا۔‏ بہرحال وہ فارس کے قوانین سے اچھی طرح واقف تھا جس میں سے ایک قانون اُس کام سے منع کرتا تھا جو آستر کرنے جا رہی تھیں۔‏ قانون یہ تھا کہ جو بھی شخص بِن بلائے بادشاہ کے سامنے آئے،‏ اُسے سزائےموت دے دی جائے۔‏ بادشاہ نے آستر کو نہیں بلایا تھا مگر وہ پھر بھی اُس کے سامنے جا رہی تھیں۔‏ جس صحن میں آستر پہنچنے والی تھیں،‏ وہاں پر وہ بادشاہ کے تخت سے صاف نظر آ سکتی تھیں۔‏ اُن کے بڑھتے قدموں کے ساتھ اُن کے دل میں ہول اُٹھ رہے تھے اور وہ خود کو موت کے قریب جاتا محسوس کر رہی تھیں۔‏‏—‏آستر 4:‏11؛‏ 5:‏1 کو پڑھیں۔‏

3 آستر اِتنا بڑا خطرہ کیوں مول لے رہی تھیں؟‏ اور ہم خدا کی اِس وفادار بندی سے ایمان کے حوالے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ آئیں،‏ پہلے یہ دیکھیں کہ آستر فارس کی ملکہ کیسے بن گئیں۔‏

آستر کی اِبتدائی زندگی

4.‏ آستر کا پس‌منظر بیان کریں اور بتائیں کہ وہ مردکی کے ساتھ کیوں رہتی تھیں۔‏

4 آستر کے ماں باپ فوت ہو چُکے تھے۔‏ بائبل میں اُن کے والدین کے حوالے سے زیادہ نہیں بتایا گیا جنہوں نے اُن کا نام ہدساہ رکھا تھا۔‏ عبرانی لفظ ”‏ہدساہ“‏ کا مطلب ”‏مہندی کا پودا“‏ ہے جس میں سفید رنگ کے خوب‌صورت پھول ہوتے ہیں۔‏ جب آستر کے والدین کی وفات ہوئی تو اُن کے ایک رشتےدار مردکی نے اُن کی پرورش کی۔‏ مردکی ایک نیک دل شخص تھے۔‏ وہ آستر کے تایازاد بھائی تھے لیکن عمر میں اُن سے کافی بڑے تھے۔‏ وہ آستر کو اپنے گھر لے آئے اور اُنہیں اپنی بیٹی بنا کر پالا۔‏—‏آستر 2:‏5-‏7،‏ 15‏۔‏

مردکی کے لیے آستر بیٹی جیسی تھیں اور اُنہیں اُن پر بڑا فخر تھا۔‏

5،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ مردکی نے آستر کی پرورش کیسے کی؟‏ (‏ب)‏ سوسن میں آستر اور مردکی کی زندگی کیسی تھی؟‏

5 مردکی اور آستر دیگر یہودیوں کے ساتھ فارس کی سلطنت کے دارالحکومت سوسن میں رہتے تھے۔‏ یہودیوں کو فارس میں اپنے مذہب اور شریعت کے حکموں کی پابندی کرنے کی وجہ سے غالباً کسی حد تک حقارت‌آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔‏ ایسے حالات میں مردکی کے ساتھ آستر کا بندھن اُس وقت ضرور مضبوط ہوتا ہوگا جب مردکی اُنہیں بتاتے ہوں گے کہ یہوواہ بہت رحم‌دل خدا ہے اور جیسے وہ ماضی میں اپنے بندوں کو بہت سی مصیبتوں سے بچاتا آیا ہے،‏ وہ آئندہ بھی اُنہیں مشکلوں سے نکالے گا۔‏—‏احبا 26:‏44،‏ 45‏۔‏

6 ایسا لگتا ہے کہ مردکی سوسن کے محل میں سرکاری اہلکار تھے کیونکہ وہ بادشاہ کے دیگر ملازموں کے ساتھ باقاعدگی سے پھاٹک پر بیٹھتے تھے۔‏ (‏آستر 2:‏19،‏ 21؛‏ 3:‏3‏)‏ ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ آستر اپنا وقت کیسے گزارتی تھیں لیکن بےشک وہ گھر کے کام‌کاج کرنے میں مصروف رہتی ہوں گی۔‏ مردکی اور آستر کا گھر شاید محل سے دُور دریا کے پار موجود معمولی گھروں میں سے ایک تھا۔‏ ہو سکتا ہے کہ آستر کو سوسن کے بازاروں میں جانا پسند ہو جہاں سونے اور چاندی کا کاروبار کرنے والوں اور دیگر تاجروں کی دُکانیں تھیں۔‏ اُس وقت آستر کے خواب‌وخیال میں بھی نہیں ہوگا کہ جو بیش‌قیمت لباس اور زیورات وہ اِن دُکانوں میں دیکھ رہی ہیں،‏ وہ کل کو اُن کے لیے ایک عام سی چیز بن جائیں گے۔‏ آستر کو اِس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ آنے والا وقت اپنے دامن میں اُن کے لیے کیا سمیٹے ہوئے ہے۔‏

‏”‏وہ لڑکی حسین اور خوب‌صورت تھی“‏

7.‏ وشتی کو ملکہ کے عہدے سے کیوں ہٹا دیا گیا اور اِس کے بعد کیا ہوا؟‏

7 ایک دن شہر بھر میں اُس ہنگامے کی خبر پھیلی ہوئی تھی جو شاہی گھرانے میں برپا ہوا تھا۔‏ بادشاہ اخسویرس نے ایک عالیشان ضیافت رکھی تھی اور اِس میں اپنی سلطنت کے سرداروں کے لیے اعلیٰ قسم کے کھانوں اور بہترین مے کا اِہتمام کروایا تھا۔‏ ضیافت کے دوران بادشاہ نے اپنی خوب‌صورت بیوی ملکہ وشتی کو بلانے کا فیصلہ کِیا جو عورتوں کے ساتھ الگ سے جشن منا رہی تھی۔‏ لیکن ملکہ نے آنے سے اِنکار کر دیا۔‏ بادشاہ نے اِسے اپنی توہین خیال کِیا اور وہ غصے سے بھڑک اُٹھا۔‏ اُس نے اپنے مشیروں سے پوچھا کہ وشتی کو اُس کی گستاخی کی کیا سزا ملنی چاہیے۔‏ صلاح مشورے کے بعد یہ طے پایا کہ وشتی کو ملکہ کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔‏ اِس کے بعد بادشاہ کے ملازموں نے پورے ملک میں خوب‌صورت کنواریوں کو ڈھونڈنا شروع کِیا تاکہ بادشاہ اُن میں سے نئی ملکہ چُنے۔‏—‏آستر 1:‏1–‏2:‏4‏۔‏

8.‏ ‏(‏الف)‏ جب آستر بڑی ہو رہی ہوں گی تو مردکی اُن کے حوالے سے فکرمند کیوں ہوتے ہوں گے؟‏ (‏ب)‏ بائبل میں خوب‌صورتی کے حوالے سے کون سا نظریہ پیش کِیا گیا ہے اور ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏امثال 31:‏30 کو بھی دیکھیں۔‏)‏

8 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ آستر بڑی ”‏حسین اور خوب‌صورت“‏ تھیں۔‏ (‏آستر 2:‏7‏)‏ جب مردکی یہ دیکھتے ہوں گے کہ اُن کی چچازاد بہن جو کبھی چھوٹی تھی،‏ اب بڑی اور اِتنی خوب‌صورت ہو گئی ہے تو وہ بڑا فخر محسوس کرتے ہوں گے۔‏ لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن کے دل میں کئی فکریں بھی جنم لیتی ہوں گی۔‏ بائبل میں خوب‌صورتی کے حوالے سے بالکل مناسب نظریہ پیش کِیا گیا ہے۔‏ اِس کے مطابق خوب‌صورتی اُسی شخص پر جچتی ہے جو اِسے دانش‌مندی اور خاکساری کے بیش‌قیمت موتیوں سے سنوارتا ہے،‏ نہیں تو اُس کے دل پر غرور،‏ خودپرستی اور دیگر بُری خصلتوں کی میل چڑھ جاتی ہے۔‏ ‏(‏امثال 11:‏22 کو پڑھیں۔‏)‏ بےشک آپ نے بھی اِس بات کی صداقت کا تجربہ کِیا ہوگا۔‏ کیا آستر کی خوب‌صورتی نے اُن کی شخصیت کو چار چاند لگائے یا کیا اِس کی وجہ سے اُن کی شخصیت کو گرہن لگ گیا؟‏ یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا۔‏

9.‏ ‏(‏الف)‏ جب بادشاہ کے ملازموں نے آستر کو دیکھا تو اُنہوں نے کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ آستر اور مردکی کے لیے ایک دوسرے سے دُور ہونا آسان کیوں نہیں رہا ہوگا؟‏ (‏ج)‏ مردکی نے آستر کی شادی ایک بُت‌پرست شخص سے کیوں ہونے دی؟‏ (‏بکس کو بھی دیکھیں۔‏)‏

9 جب بادشاہ کے ملازم خوب‌صورت کنواریاں ڈھونڈ رہے تھے تو آستر بھی اُن کی نظروں میں آئیں۔‏ لہٰذا وہ اُنہیں بھی باقی لڑکیوں کے ساتھ بادشاہ کے محل میں لے گئے۔‏ (‏آستر 2:‏8‏)‏ مردکی اور آستر کے لیے ایک دوسرے سے الگ ہونا آسان نہیں رہا ہوگا کیونکہ اُن کا رشتہ باپ بیٹی جیسا تھا۔‏ بےشک مردکی یہ ہرگز نہیں چاہتے ہوں گے کہ آستر کی شادی ایک غیرقوم شخص سے ہو پھر چاہے وہ شخص بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔‏ لیکن حالات اُن کے اِختیار سے باہر تھے۔‏ * اِس سے پہلے کہ بادشاہ کے ملازم آستر کو ساتھ لے جاتے،‏ مردکی نے یقیناً اُنہیں ضروری نصیحتیں کی ہوں گی اور آستر نے اِن نصیحتوں کو پلے سے باندھ لیا ہوگا۔‏ سوسن پہنچنے تک آستر کے ذہن میں سوالوں کا ایک طوفان سا پیدا ہو گیا تھا۔‏ آخر اُن کی زندگی کون سا رُخ اِختیار کرنے والی تھی؟‏

وہ ’‏سب کی منظورِنظر ہوئیں‘‏

10،‏ 11.‏ ‏(‏الف)‏ آستر جس نئے ماحول میں رہ رہی تھیں،‏ اُس کا اُن پر کیا اثر ہو سکتا تھا؟‏ (‏ب)‏ یہ کیسے ظاہر ہوا کہ مردکی،‏ آستر کے حوالے سے بہت فکرمند تھے؟‏

10 پلک جھپکتے ہی آستر کی زندگی بدل گئی تھی۔‏ محل میں اُن کے ساتھ اَور بھی ”‏بہت سی کنواریاں“‏ تھیں جنہیں فارس کی سلطنت کے کونے کونے سے لایا گیا تھا۔‏ اُن لڑکیوں کے رسم‌ورواج،‏ زبانیں اور عادتیں ایک دوسرے سے کافی الگ ہوں گی۔‏ اُن سب کو ہیجا نامی افسر کی نگرانی میں رکھا گیا۔‏ اُنہیں بادشاہ کے حضور لے جانے سے پہلے ایک سال تک فرق فرق طریقوں سے اُن کا حسن نکھارا جانا تھا جس میں مختلف قسموں کے خوشبودار تیل سے مساج شامل تھی۔‏ (‏آستر 2:‏8،‏ 12‏)‏ ایسے ماحول اور طرزِزندگی کی وجہ سے اُن لڑکیوں پر خوب‌صورت دِکھنے کا جنون بڑی آسانی سے سوار ہو سکتا تھا۔‏ اِس کے علاوہ اُن کے دل میں خودپرستی اور مقابلہ‌بازی کا رُجحان بھی سر اُٹھا سکتا تھا۔‏ کیا آستر پر بھی اِس ماحول کا رنگ چڑھ گیا؟‏

11 مردکی کو آستر کی فکر کھائے جاتی تھی۔‏ وہ ہر روز حرم‌سرا (‏یعنی عورتوں کا مکان)‏ کے قریب جاتے تاکہ آستر کی خیریت معلوم کر سکیں۔‏ (‏آستر 2:‏11‏)‏ جب بھی مردکی کو محل کے کسی ملازم سے آستر کے بارے میں کوئی خبر ملتی ہوگی تو بےشک اُن کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہوگا۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

12،‏ 13.‏ ‏(‏الف)‏ آستر نے اپنے اِردگِرد کے لوگوں پر کیسا تاثر چھوڑا؟‏ (‏ب)‏ مردکی کو یہ جان کر خوشی کیوں ہوتی ہوگی کہ آستر نے کسی کو اپنی قوم کے بارے میں نہیں بتایا ہے؟‏

12 ہیجا،‏ آستر سے اِتنا متاثر ہوا کہ اُس نے اُن پر خاص مہربانی کی اور اُنہیں سات نوکرانیاں اور حرم‌سرا میں سب سے اچھی جگہ دی۔‏ بائبل میں تو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ”‏آؔستر اُن سب کی جن کی نگاہ اُس پر پڑی منظورِنظر ہوئی۔‏“‏ (‏آستر 2:‏9،‏ 15‏)‏ لیکن آستر صرف اپنی خوب‌صورتی کی وجہ سے لوگوں کے دل کو اِتنا نہیں بھا رہی تھیں بلکہ اُن میں بہت سی خوبیاں بھی تھیں۔‏

آستر جانتی تھیں کہ خاکساری اور دانش‌مندی خوب‌صورتی سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔‏

13 اُن کی ایک خوبی بائبل میں درج اِس بات سے ظاہر ہوتی ہے:‏ ”‏آؔستر نے نہ اپنی قوم نہ اپنا خاندان ظاہر کِیا تھا کیونکہ مرؔدکی نے اُسے تاکید کر دی تھی کہ نہ بتائے۔‏“‏ (‏آستر 2:‏10‏)‏ مردکی نے آستر کو دوسروں پر یہ ظاہر کرنے سے منع کِیا تھا کہ اُن کا تعلق یہودی قوم سے ہے۔‏ بِلاشُبہ مردکی یہ دیکھ چُکے تھے کہ شاہی خاندان کے لوگوں میں یہودیوں کے لیے کتنا تعصب پایا جاتا ہے۔‏ بہرحال جب اُنہیں یہ پتہ چلتا ہوگا کہ آستر اُن کی نظروں سے دُور ہونے کے باوجود اِتنی سمجھ‌داری اور فرمانبرداری دِکھا رہی ہیں تو اُن کی خوشی کی اِنتہا نہیں رہتی ہوگی۔‏

14.‏ آج‌کل نوجوان،‏ آستر کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

14 آج بھی مسیحی نوجوان اپنے والدین یا اُن لوگوں کا دل خوش کر سکتے ہیں جو اُن کی پرورش کرتے ہیں۔‏ وہ اُس صورت میں بھی خدا کے معیاروں پر ڈٹے رہ سکتے ہیں جب اُن کے والدین اُن کے ساتھ نہیں ہوتے اور ایسے لوگوں کے اثر میں آنے سے بچ سکتے ہیں جو پیسے اور موج مستی کے پیچھے بھاگتے ہیں اور بدکاری اور تشدد کو پسند کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے وہ آستر کی طرح اپنے آسمانی باپ کا دل خوشی سے بھر دیتے ہیں۔‏‏—‏امثال 27:‏11 کو پڑھیں۔‏

15،‏ 16.‏ ‏(‏الف)‏ آستر نے بادشاہ کا دل کیسے جیتا؟‏ (‏ب)‏ آستر کے لیے اپنی زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق ڈھلنا مشکل کیوں رہا ہوگا؟‏

15 جب وقت آیا کہ آستر کو بادشاہ کے حضور لے جایا جائے تو اُن سے کہا گیا کہ وہ سجنے سنورنے کے لیے جو بھی لینا چاہتی ہیں،‏ لے لیں۔‏ لیکن آستر نے خاکساری کا مظاہرہ کِیا اور جو کچھ ہیجا نے اُن کے لیے چُنا تھا،‏ اُس کے علاوہ کچھ نہ لیا۔‏ (‏آستر 2:‏15‏)‏ شاید اُنہیں یہ احساس تھا کہ بادشاہ کا دل جیتنے کے لیے صرف خوب‌صورت دِکھنا کافی نہیں ہوگا۔‏ غالباً اُن کا خیال تھا کہ اگر وہ خاکساری کی خوبی دِکھائیں گی جس کی محل کے لوگوں میں خاصی کمی تھی تو وہ بادشاہ کے دل میں زیادہ جگہ بنا پائیں گی۔‏ کیا آستر کا خیال درست تھا؟‏

16 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ آستر ”‏بادشاہ .‏ .‏ .‏ کی نظر میں اُن سب کنواریوں سے زیادہ عزیز اور پسندیدہ ٹھہری۔‏ پس اُس نے شاہی تاج اُس کے سر پر رکھ دیا اور وشتیؔ کی جگہ اُسے ملکہ بنایا۔‏“‏ (‏آستر 2:‏17‏)‏ آستر جیسی خاکسار لڑکی کے لیے خود کو اِتنی بڑی تبدیلی کے مطابق ڈھالنا کافی مشکل رہا ہوگا۔‏ وہ فارس کی ملکہ یعنی اُس زمانے کے سب سے طاقت‌ور حکمران کی بیوی بن چُکی تھیں۔‏ کیا اِس مرتبے کی وجہ سے اُن کی آنکھیں ماتھے پر لگ گئیں؟‏ بالکل نہیں۔‏

17.‏ ‏(‏الف)‏ آستر،‏ مردکی کی فرمانبردار کیسے رہیں؟‏ (‏ب)‏ آج ہمارے لیے آستر کی مثال پر عمل کرنا کیوں ضروری ہے؟‏

17 آستر ایک فرمانبردار بیٹی کی طرح مردکی کی نصیحت پر عمل کرتی رہیں۔‏ اُنہوں نے اِس بات کو راز میں رکھا کہ وہ یہودی قوم سے تعلق رکھتی ہیں۔‏ اِس کے علاوہ جب مردکی نے آستر کو بتایا کہ دو آدمی بادشاہ کو قتل کرنے کی سازش کر رہے ہیں تو آستر نے فرمانبرداری سے یہ خبر بادشاہ کے کان تک پہنچائی جس پر سازشیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔‏ (‏آستر 2:‏20-‏23‏)‏ آستر نے فرمانبرداری اور خاکساری کا جذبہ دِکھانے سے خدا پر مضبوط ایمان بھی ظاہر کِیا۔‏ آج ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم آستر کی مثال پر عمل کریں کیونکہ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جس میں فرمانبرداری کی قدر کرنے والے لوگ کم جبکہ نافرمانی اور بغاوت کو ہوا دینے والے لوگ زیادہ ہیں۔‏ لیکن مضبوط ایمان رکھنے والے اشخاص آستر کی طرح فرمانبرداری کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔‏

آستر کے ایمان کا اِمتحان

18.‏ ‏(‏الف)‏ مردکی نے ہامان کے سامنے جھکنے سے غالباً کیوں اِنکار کر دیا؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ آج خدا کے وفادار بندے مردکی کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

18 ہامان نامی ایک شخص نے بادشاہ کے دربار میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔‏ بادشاہ اخسویرس نے اُسے وزیرِاعظم بنا دیا اور اِس عہدے کی وجہ سے وہ اخسویرس کا خاص مشیر اور سلطنت میں بادشاہ کے بعد سب سے زیادہ بااِختیار شخص بن گیا۔‏ بادشاہ نے تو یہاں تک حکم جاری کر دیا کہ جو بھی شخص ہامان کے سامنے آئے،‏ وہ جھک کر اُس کی تعظیم کرے۔‏ (‏آستر 3:‏1-‏4‏)‏ اِس حکم نے مردکی کے لیے بڑی مشکل پیدا کر دی۔‏ وہ بادشاہ کا حکم ماننا تو ضروری سمجھتے تھے لیکن اُس صورت میں نہیں اگر اِسے ماننے کی وجہ سے خدا ناخوش ہوتا۔‏ بات دراصل یہ تھی کہ ہامان کا تعلق اجاج کے خاندان سے تھا۔‏ اجاج،‏ عمالیقیوں کا ایک بادشاہ تھا جسے سموئیل نبی نے قتل کِیا تھا۔‏ (‏1-‏سمو 15:‏33‏)‏ عمالیقیوں کے دل میں اِس حد تک بُرائی بھری ہوئی تھی کہ اُنہوں نے خود کو یہوواہ خدا اور بنی‌اِسرائیل کا دُشمن بنا لیا تھا۔‏ اور اِس لیے خدا نے عمالیقیوں کو صفحۂ‌ہستی سے مٹانے کا حکم دیا ہوا تھا۔‏ * (‏اِست 25:‏19‏)‏ ایسی صورت میں یہودی قوم سے تعلق رکھنے والا خدا کا ایک وفادار بندہ بھلا ایک عمالیقی کے سامنے جھک کر اُس کی تعظیم کیسے کر سکتا تھا؟‏ مردکی ایسا نہیں کرنے والے تھے لہٰذا وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔‏ آج بھی خدا کے وفادار بندے یہ سمجھتے ہیں کہ ”‏خدا کا کہنا ماننا اِنسانوں کا کہنا ماننے سے زیادہ ضروری ہے“‏ پھر چاہے ایسا کرنے کی وجہ سے اُن کی جان ہی داؤ پر کیوں نہ لگا جائے۔‏—‏اعما 5:‏29‏۔‏

19.‏ ہامان کیا کرنا چاہتا تھا اور اپنے گھٹیا اِرادے کو پورا کرنے کے لیے اُس نے بادشاہ کو کیسے قائل کِیا؟‏

19 ہامان غصے کی آگ میں جلنے لگا۔‏ اُس کا غصہ اِتنا شدید تھا کہ صرف مردکی کو قتل کروا کر اُس کے دل کو ٹھنڈک نہیں ملنے والی تھی۔‏ وہ تو اُن کی قوم کے سب لوگوں کا نام‌ونشان مٹانا چاہتا تھا۔‏ اِس لیے ہامان،‏ یہودیوں کے خلاف بادشاہ کے کان بھرنے لگا۔‏ اُس نے یہودی قوم کا بنام ذکر کیے بغیر اُن کے بارے میں کہا کہ ”‏ایک قوم سب قوموں کے درمیان پراگندہ اور پھیلی ہوئی ہے۔‏“‏ اُس نے بادشاہ کو یہ تاثر دیا کہ یہودی لوگ اُس کے کسی کام کے نہیں ہیں۔‏ اُس نے تو یہاں تک کہا کہ اِس قوم کے لوگ بادشاہ کے قوانین کو نہیں مانتے ہیں اور اِس طرح اُن پر بغاوت کا اِلزام لگایا۔‏ ہامان نے بادشاہ کو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ سلطنت کے تمام یہودیوں کے قتل پر آنے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت کے خزانے میں ایک بھاری رقم جمع کروائے گا۔‏ * اِس پر اخسویرس نے اپنی انگوٹھی اُتار کر ہامان کو دے دی تاکہ وہ اپنی مرضی کا فرمان جاری کر کے اُس پر مُہر کر دے۔‏—‏آستر 3:‏5-‏10‏۔‏

20،‏ 21.‏ ‏(‏الف)‏ ہامان کے فرمان کا مردکی اور فارسی سلطنت میں رہنے والے باقی یہودیوں پر کیا اثر ہوا؟‏ (‏ب)‏ مردکی نے آستر سے کیا کرنے کو کہا؟‏

20 اِس کے بعد بادشاہ نے گُھڑسوار قاصدوں کو بھیجا تاکہ وہ سلطنت کے تمام صوبوں میں اُس خط کی نقل پہنچائیں جس پر سب یہودیوں کو قتل کرنے کا فرمان درج تھا۔‏ ذرا سوچیں کہ جب اِس فرمان کی خبر یروشلیم میں موجود یہودیوں تک پہنچی ہوگی تو اُن پر کتنا خوف طاری ہو گیا ہوگا۔‏ وہ یہودی،‏ بابل کی اسیری سے واپس آئے تھے اور اپنے اُجڑے ہوئے شہر کو پھر سے تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس کی ابھی تک کوئی حفاظتی دیوار بھی نہیں بنی تھی۔‏ جب مردکی کے کانوں میں یہ بھیانک خبر پڑی ہوگی تو ہو سکتا ہے کہ اُن کے ذہن میں یروشلیم کے یہودیوں کا خیال آیا ہو اور ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے سوسن میں رہنے والے اپنے دوستوں اور رشتےداروں کے بارے میں بھی سوچا ہو۔‏ مردکی کو ایسا دھچکا لگا کہ اُنہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ دیے،‏ ٹاٹ اوڑھ لیا،‏ اپنے سر پر خاک ڈالی اور شہر کے بیچ بیٹھ کر اُونچی آواز سے رونے لگے۔‏ لیکن ہامان،‏ بادشاہ کے ساتھ بیٹھ کر مےنوشی کے مزے لیتا رہا۔‏ اُسے اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اُس کی اِس حرکت نے یہودیوں کو کس کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔‏‏—‏آستر 3:‏12–‏4:‏1 کو پڑھیں۔‏

21 جب آستر کو پتہ چلا کہ مردکی ماتم کر رہے ہیں تو اُنہوں نے اُن کے لیے کپڑے بھجوائے۔‏ لیکن مردکی کو کوئی تسلی نہ ملی۔‏ وہ جانتے تھے کہ اُنہیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔‏ شاید اُن کے ذہن میں کافی دیر سے یہ سوال گردش کر رہا تھا کہ اُن کے خدا یہوواہ نے اُن کی عزیز چچازاد بہن کو اُن سے جُدا کر کے ایک بُت‌پرست حکمران کی بیوی کیوں بننے دیا ہے۔‏ مگر اب اِس سوال کے جواب سے پردہ اُٹھنے لگا تھا۔‏ مردکی نے آستر کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ وہ بادشاہ سے رحم کی درخواست کریں اور ”‏اپنی قوم“‏ کو بچانے کے لیے قدم اُٹھائیں۔‏—‏آستر 4:‏4-‏8‏۔‏

22.‏ آستر،‏ بادشاہ کے سامنے جانے سے کیوں گھبرا رہی تھیں؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔‏)‏

22 جب آستر کو مردکی کا پیغام سنایا گیا ہوگا تو یقیناً اُن کا دل بیٹھ گیا ہوگا۔‏ اُن کے سامنے اُن کے ایمان کا سب سے بڑا اِمتحان تھا۔‏ اُنہوں نے مردکی کو اپنا جواب بھجوایا اور اِس میں اپنے تمام خدشات اور گھبراہٹ کا کُھل کر اِظہار کِیا۔‏ آستر نے مردکی کو وہ قانون یاد دِلایا جس کے مطابق بادشاہ کے سامنے بِن‌بلائے جانے کا مطلب موت کو دعوت دینا تھا اور ایسا کرنے والے کی جان صرف اُسی صورت میں بخشی جا سکتی تھی اگر بادشاہ اپنا سونے کا عصا اُس کی طرف بڑھاتا۔‏ دراصل آستر کے پاس یہ توقع کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ بادشاہ اِس طرح سے اُن کی زندگی بخش دے گا۔‏ ذرا یاد کریں کہ جب وشتی نے بادشاہ کا حکم ماننے سے اِنکار کِیا تھا تو اُس کا کیا انجام ہوا تھا۔‏ آستر نے مردکی کو یہ بھی بتایا کہ بادشاہ نے اُنہیں 30 دن سے اپنے پاس نہیں بلایا ہے۔‏ اِس وجہ سے آستر کے ذہن میں رہ رہ کر یہ خیال آ رہا ہوگا کہ کہیں بادشاہ اُن کے حوالے سے بدظن تو نہیں ہو گیا ہے اور کہیں وہ اُس کے دل سے اُتر تو نہیں گئی ہیں۔‏ *‏—‏آستر 4:‏9-‏11‏۔‏

23.‏ ‏(‏الف)‏ مردکی نے آستر کی ہمت اور ایمان کو بڑھانے کے لیے کیا کہا؟‏ (‏ب)‏ مردکی کا ایمان مثالی کیوں تھا؟‏

23 مردکی چاہتے تھے کہ آستر کی ہمت اور ایمان بڑھے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے آستر کو یہ پیغام بھجوایا کہ اگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی رہیں گی تو خدا اپنی قوم کو کسی اَور ذریعے سے بچا لے گا۔‏ اُنہوں نے آستر کو اِس بات کا بھی احساس دِلایا کہ اگر ہامان کی سازش کامیاب ہو گئی تو وہ بھی نہیں بچ پائیں گی۔‏ مردکی کی باتوں سے صاف ظاہر ہوا کہ وہ یہوواہ پر کتنا پُختہ ایمان رکھتے ہیں جو کبھی اپنے بندوں کو مٹنے نہیں دیتا اور اپنے ہر وعدے کو نبھاتا ہے۔‏ (‏یشو 23:‏14‏)‏ آخر میں اُنہوں نے آستر سے کہا:‏ ”‏کیا جانے کہ تُو ایسے ہی وقت کے لئے سلطنت کو پہنچی ہے؟‏“‏ (‏آستر 4:‏12-‏14‏)‏ مردکی نے واقعی یہوواہ خدا پر پورا بھروسا ظاہر کِیا۔‏ کیا آپ خدا پر اِتنا ہی مضبوط ایمان رکھتے ہیں؟‏—‏امثا 3:‏5،‏ 6‏۔‏

مضبوط ایمان موت کے خوف پر غالب آ گیا

24.‏ آستر نے ایمان اور دلیری کیسے ظاہر کی؟‏

24 آستر کے لیے فیصلے کا وقت آ پہنچا تھا۔‏ اُنہوں نے مردکی کو یہ پیغام بھجوایا کہ وہ اور باقی سارے یہودی اُن کے ساتھ مل کر تین دن کا روزہ رکھیں۔‏ اپنے پیغام کے آخر میں اُنہوں نے یہ الفاظ کہے جو آج بھی اُن کے مضبوط ایمان اور دلیری کی گواہی دیتے ہیں:‏ ”‏اگر مَیں ہلاک ہوئی تو ہلاک ہوئی۔‏“‏ (‏آستر 4:‏15-‏17‏)‏ اپنی زندگی کے اُن تین دنوں میں آستر نے جتنی شدت سے دُعائیں اور اِلتجائیں کی ہوں گی،‏ شاید ویسے پہلے کبھی نہ کی ہوں۔‏ جب یہ دن مکمل ہوئے تو اِمتحان کی گھڑی آ پہنچی۔‏ آستر نے اپنا بہترین شاہی لباس پہنا اور خوب بناؤسنگھار کِیا تاکہ وہ بادشاہ کے دل کو بھا سکیں۔‏ اور پھر وہ بادشاہ سے ملنے کے لیے چل پڑیں۔‏

آستر،‏ خدا کے بندوں کو بچانے کے لیے اپنی جان پر کھیل گئیں۔‏

25.‏ اُس وقت کا منظر بیان کریں جب آستر اپنے شوہر کے سامنے جا رہی تھیں۔‏

25 اِس باب کے شروع میں وہی منظر بیان کِیا گیا ہے جب آستر،‏ بادشاہ کے دربار کی طرف جا رہی تھیں۔‏ ذرا سوچیں کہ اُس وقت آستر کے دماغ میں کون کون سے خدشات آ رہے ہوں گے اور وہ کیسے دل کی گہرائی سے خدا سے دُعائیں کر رہی ہوں گی۔‏ آستر اندرونی صحن میں داخل ہوئیں جہاں سے اُنہیں بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا نظر آیا۔‏ شاید اُنہوں نے اُس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کی ہو۔‏ اگر آستر کو اُس وقت اِنتظار کرنا پڑا ہوگا تو اُن کے لیے یہ لمحے صدیوں سے بھی لمبے رہے ہوں گے۔‏ مگر پھر اِنتظار کے یہ لمحے ختم ہوئے اور اُن کے شوہر کی نظر اُن پر پڑی۔‏ بےشک وہ آستر کو دیکھ کر حیران رہ گیا ہوگا۔‏ لیکن پھر اُس کے چہرے پر نرمی کے آثار ظاہر ہوئے اور اُس نے اپنا سونے کا عصا آستر کی طرف بڑھا دیا۔‏—‏آستر 5:‏1،‏ 2‏۔‏

26.‏ ‏(‏الف)‏ سچے مسیحیوں کو آستر جیسی دلیری کی ضرورت کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ کیا آستر کا کام مکمل ہو گیا تھا؟‏

26 بادشاہ نے آستر کی بات سننے کے لیے رضامندی دِکھائی تھی۔‏ اِتنا بڑا قدم اُٹھا کر آستر نے خدا کے لیے وفاداری کا مظاہرہ کِیا تھا اور اپنی قوم کو بچانے کے لیے اپنی جان داؤ پر لگا دی تھی۔‏ یوں اُنہوں نے ہر زمانے میں رہنے والے خدا کے بندوں کے لیے ایمان اور دلیری کی عمدہ مثال قائم کی۔‏ آج بھی سچے مسیحی،‏ آستر جیسے خدا کے وفادار بندوں کی مثالوں کو یاد رکھتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ بےلوث محبت اُن کے سچے پیروکاروں کی پہچان ہوگی۔‏ ‏(‏یوحنا 13:‏34،‏ 35 کو پڑھیں۔‏)‏ ایسی محبت دِکھانے کے لیے اکثر آستر جیسی دلیری درکار ہوتی ہے۔‏ لیکن آستر نے خدا کے بندوں کے دِفاع کی خاطر ابھی صرف پہلا قدم ہی اُٹھایا تھا۔‏ اُنہوں نے بادشاہ کو اِس بات پر قائل کرنا تھا کہ اُس کا قابلِ‌بھروسا مشیر ہامان ایک مکار آدمی ہے۔‏ لیکن وہ ایسا کیسے کر سکتی تھیں اور اپنی قوم کو ہلاک ہونے سے کیسے بچا سکتی تھیں؟‏ اِن سوالوں کے جواب آپ کو اگلے باب میں ملیں گے۔‏

^ پیراگراف 2 بہت سے تاریخ‌دانوں کا خیال ہے کہ اخسویرس،‏ خشایارشا اوّل تھا جس نے پانچویں صدی قبل‌ازمسیح میں فارسی سلطنت پر حکومت کی۔‏

^ پیراگراف 9 باب نمبر 16 میں بکس ”‏آستر کی کتاب کے بارے میں کچھ سوال‏“‏ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 18 بادشاہ حِزقیاہ کے دَور میں اُن ”‏باقی عمالیقیوں کو جو بچ رہے تھے،‏“‏ قتل کر دیا گیا تھا۔‏ لہٰذا ہامان غالباً اُن چند عمالیقیوں میں سے ایک تھا جو ابھی تک زندہ تھے۔‏—‏1-‏توا 4:‏43‏۔‏

^ پیراگراف 19 ہامان نے بادشاہ کو چاندی کے 10 ہزار سِکوں کی پیشکش کی جن کی مالیت آج اربوں روپے بنتی ہے۔‏ اگر اخسویرس واقعی خشایارشا اوّل تھا تو ہامان کی یہ پیشکش اُسے زیادہ لبھائی ہوگی۔‏ خشایارشا ایک لمبے عرصے سے یونان کے خلاف جنگ کی منصوبہ‌سازی کر رہا تھا جس کے لیے اُسے ڈھیر ساری رقم کی ضرورت تھی۔‏ بہرحال جب یہ جنگ ہوئی تو اِس کا انجام خشایارشا کی شکست کی صورت میں نکلا۔‏

^ پیراگراف 22 خشایارشا اوّل کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اُس کا مزاج بات بات پر بگڑ جاتا تھا۔‏ یونانی تاریخ‌دان ہیرودوتس نے اِس سلسلے میں اُس وقت سے کچھ مثالیں تحریر کیں جب خشایارشا یونان سے جنگ لڑ رہا تھا۔‏ یونان تک پہنچنے کے لیے بادشاہ کی فوج کو سمندر کے ایک ٹکڑے کو پار کرنا تھا۔‏ لہٰذا بادشاہ نے اِس پر کشتیوں کا ایک پُل بنانے کا حکم دیا۔‏ جب طوفان کی وجہ سے یہ پُل ٹوٹ گیا تو بادشاہ نے اِسے بنانے والوں کے سر قلم کروا دیے۔‏ غصے میں اُس کا دماغ اِس حد تک چل گیا کہ اُس نے اپنے آدمیوں کو پانی پر کوڑے مار کر اِسے سزا دینے اور ساتھ میں ایک توہین‌آمیز فرمان پڑھنے کو کہا۔‏ اِسی جنگ کے دوران جب ایک امیر آدمی نے بادشاہ سے درخواست کی کہ اُس کے بیٹے کو فوج میں بھرتی نہ کِیا جائے تو بادشاہ نے اُس لڑکے کے دو ٹکڑے کروا دیے اور اُس کی لاش کو عبرت کے نشان کے طور پر لوگوں کے سامنے رکھوا دیا۔‏