مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

غصے کو قابو میں رکھنا ممکن ہے

غصے کو قابو میں رکھنا ممکن ہے

غصے کو قابو میں رکھنا ممکن ہے

تقریباً ۲۰۰۰ سال پہلے یونانی فلاسفر ارسطو نے یہ نظریہ پیش کِیا کہ اگر انسان غصے میں یا دُکھی ہو اور وہ دردناک دُکھی ڈرامے دیکھے تو اُس کے دل کا غبار نکل جاتا ہے۔‏ ارسطو نے دل کا غبار نکالنے کے اِس عمل کے لئے یونانی لفظ ”‏کتھارسس“‏ استعمال کِیا۔‏ ارسطو کے نظریے کے پیچھے خیال یہ تھا کہ انسان دل کا غبار نکالنے سے ہلکاپھلکا محسوس کرے۔‏

پچھلی صدی کے ایک نامور ماہرِنفسیات سگمنڈ فرائیڈ بھی ارسطو کے نظریے سے اتفاق کرتے تھے۔‏ اُن کا کہنا تھا کہ اگر ایک شخص اپنے اندر کی کڑواہٹ کو دبا کر رکھتا ہے تو وہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو جائے گا۔‏ لہٰذا فرائیڈ کا خیال تھا کہ غصے کو قابو میں رکھنے کی بجائے اِسے اپنے اندر سے نکال دینا بہتر ہوتا ہے۔‏

تحقیق‌دانوں نے ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء تک ارسطو اور فرائیڈ کے نظریے پر بہت تحقیق کی۔‏ لیکن اُنہیں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جس کی بِنا پر وہ کہہ سکتے کہ یہ نظریہ درست ہے۔‏ اِس لئے ایک ماہرِنفسیات کیرل ٹاورس نے لکھا کہ تحقیق‌دانوں کو اِس کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ غصے میں بےقابو ہونے سے دل ہلکا ہو جاتا ہے اِس لئے اِس نظریے کو الوِداع کہنے کا وقت آ گیا ہے۔‏

ماہرِنفسیات گیری ہین‌کنز نے کہا:‏ ”‏تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جب انسان بےقابو ہو کر اپنا غصہ نکالتا ہے تو اکثر اُس کے دل میں غصہ کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو جاتا ہے۔‏“‏ ممکن ہے کہ ماہرِنفسیات اِس بات پر کبھی متفق نہ ہوں کہ غصہ نکالنے کے فائدے ہوتے ہیں یا نقصان۔‏ لیکن بہت سے لوگوں نے دیکھا ہے کہ غصے کے سلسلے میں خدا کے کلام کی ہدایت پر عمل کرنے سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔‏

‏’‏قہر سے باز آئیں‘‏

خدا کے کلام میں ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ ہم اپنے غصے کو قابو میں رکھیں۔‏ بادشاہ داؤد نے لکھا:‏ ”‏قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے۔‏ بیزار نہ ہو۔‏ اِس سے بُرائی ہی نکلتی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۳۷:‏۸‏)‏ غصے میں آکر ہم اکثر کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں یا ایسا کام کر بیٹھتے ہیں جس پر شاید ہمیں بعد میں شرمندگی اور پچھتاوا ہو۔‏ لہٰذا اِس سے پہلے کہ ہم غصے میں آپے سے باہر ہوں،‏ ہمیں اِس پر قابو پا لینا چاہئے۔‏ مانا کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے لیکن یہ ناممکن نہیں۔‏ آئیں،‏ تین طریقوں پر غور کرتے ہیں جن پر عمل کرنے سے آپ اپنے غصے کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔‏

غصے کی شدت کو کم کریں

جب آپ کو غصہ آئے تو خود کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔‏ وہ بات نہ کہیں جو سب سے پہلے آپ کے ذہن میں آتی ہے۔‏ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ اپنے غصے کو قابو میں نہیں رکھ پائیں گے تو خدا کے کلام کی اِس نصیحت پر عمل کریں:‏ ”‏جھگڑے کا شروع پانی کے پھوٹ نکلنے کی مانند ہے اِس لئے لڑائی سے پہلے جھگڑے کو چھوڑ دو۔‏“‏ (‏امثال ۱۷:‏۱۴‏)‏ جھگڑے کو چھوڑ دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم وہاں سے چلے جائیں۔‏

ایک شخص جن کا نام جیک ہے،‏ اُنہوں نے خدا کے کلام کی اِس نصیحت پر عمل کِیا اور یوں وہ اپنے غصے پر غالب آ گئے۔‏ جیک کے والد اکثر بہت زیادہ شراب پیتے تھے جس کے بعد اُن کو غصے کے دورے پڑتے تھے۔‏ جیک بھی اپنے والد کی دیکھادیکھی غصہ کرنے کی عادت میں پڑ گئے۔‏ جیک نے کہا:‏ ”‏جب مجھے غصہ آتا تھا تو مجھے لگتا تھا جیسے میرے اندر آگ لگ گئی ہے اور مَیں گالی‌گلوچ اور مارپٹائی شروع کر دیتا تھا۔‏“‏

لیکن جب جیک نے یہوواہ کے گواہوں سے خدا کے کلام کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تو اُن کی شخصیت میں تبدیلی آنے لگی۔‏ وہ جان گئے کہ خدا کی مدد سے وہ اپنے غصے کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔‏ جیک کو وہ واقعہ یاد ہے جب اُنہوں نے پہلی مرتبہ اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کے لئے خدا کے کلام کی نصیحت پر عمل کِیا اور جھگڑے کو چھوڑ دیا۔‏ ہوا یہ کہ اُن کے ساتھ کام کرنے والے ایک شخص نے اُن کو گالی دی۔‏ جیک کہتے ہیں کہ ”‏اُس وقت میرے اندر غصے کی لہر دوڑ گئی۔‏ میرا دل چاہا کہ مَیں اِس شخص کو پکڑ کر خوب ماروں۔‏“‏

لیکن جیک نے ایسا کچھ نہ کِیا۔‏ وہ اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟‏ وہ کہتے ہیں کہ ”‏مَیں نے اُسی وقت دُعا کی کہ اے یہوواہ خدا،‏ میری مدد کر تاکہ مَیں آپے سے باہر نہ ہو جاؤں۔‏ اُسی لمحے مجھ پر سکون طاری ہونے لگا اور مَیں وہاں سے چلا گیا۔‏“‏ اِس واقعے کے بعد بھی جیک خدا کے کلام کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔‏ اُنہوں نے اَور بھی بہت سے صحیفوں پر غور کِیا جن میں غصے کو قابو میں رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے،‏ مثلاً امثال ۲۶:‏۲۰ جس میں لکھا ہے کہ ”‏لکڑی نہ ہونے سے آگ بجھ جاتی ہے۔‏“‏ اِس کے علاوہ جیک نے باربار خدا سے مدد مانگی۔‏ یوں وہ اپنے غصے پر غالب آ گئے۔‏

خود کو پُرسکون کرنا سیکھیں

‏”‏دل کا اطمینان جسم کی زندگی ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۴:‏۳۰‏،‏ کیتھولک ترجمہ)‏ واقعی جب ایک شخص کے دل میں اطمینان اور سکون ہوتا ہے تو اُس کی ذہنی اور جسمانی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔‏ آپ دل کا اطمینان حاصل کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏ نیچے اِس سلسلے میں کچھ مشورے دئے گئے ہیں:‏

● لمبےلمبے سانس لیں۔‏ یہ غصے کی شدت کو کم کرنے کا بڑا مؤثر طریقہ ہے۔‏

● لمبےلمبے سانس لیتے وقت خود سے باربار کچھ ایسے الفاظ کہیں:‏ ”‏غصہ نہیں“‏ یا ”‏جانے دو“‏ یا ”‏چپ“‏ وغیرہ۔‏

● کوئی ایسا کام کرنے لگیں جو آپ کو پسند ہو،‏ مثلاً کتابیں پڑھیں،‏ گانے سنیں،‏ باغبانی کریں وغیرہ۔‏

● باقاعدگی سے ورزش کریں اور متوازن خوراک کھائیں۔‏

اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں

سچ ہے کہ آپ کو وقتاًفوقتاً کسی نہ کسی بات پر یا کسی شخص پر غصہ ضرور آئے گا۔‏ مگر آپ اپنے غصے کی آگ کو بھڑکنے سے روک سکتے ہیں۔‏ اِس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔‏

دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ جو خود سے اور دوسروں سے بڑی‌بڑی توقعات رکھتے ہیں،‏ اکثر وہ غصہ کرنے کی عادت میں پڑ جاتے ہیں۔‏ ایسا کیوں ہے؟‏ کیونکہ جب کوئی شخص اُن کی توقعات پر پورا نہیں اُترتا یا کوئی کام اُن کی توقع کے مطابق نہیں ہوتا تو وہ جھنجلا جاتے ہیں۔‏ اگر آپ کی توقعات بہت بلند ہیں تو یاد رکھیں کہ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ کوئی شخص ہر لحاظ سے راست‌باز نہیں ہوتا۔‏ (‏رومیوں ۳:‏۱۰‏)‏ لہٰذا اگر آپ خود سے اور دوسروں سے حد سے زیادہ توقعات رکھیں گے تو آپ کو مایوسی کا سامنا ہوگا۔‏

یاد رکھیں کہ آپ سے اور دوسروں سے بھی غلطیاں ہوں گی۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔‏ کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔‏“‏ (‏یعقوب ۳:‏۲‏)‏ اِس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”‏زمین پر کوئی ایسا راست‌باز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اور خطا نہ کرے۔‏“‏ (‏واعظ ۷:‏۲۰‏)‏ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اُن سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہو سکتی،‏ وہ زندگی‌بھر جھنجھلاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔‏

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ ہم سب کبھی نہ کبھی غصے میں آ جاتے ہیں کیونکہ یہ فطری ہے۔‏ لیکن یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اپنے غصے کو کیسے ظاہر کریں۔‏ خدا کے کلام میں یہ ہدایت دی گئی ہے:‏ ”‏غصہ تو کرو مگر گُناہ نہ کرو۔‏ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔‏“‏ (‏افسیوں ۴:‏۲۶‏)‏ اگر ہم اپنے غصے کو قابو میں رکھیں گے اور اِسے مناسب طریقے سے ظاہر کریں گے تو نہ صرف ہمیں بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ ہوگا۔‏

‏[‏صفحہ ۸‏،‏ ۹ پر بکس/‏تصویریں]‏

خود کو پُرسکون کرنے کے لئے .‏ .‏ .‏

لمبےلمبے سانس لیں۔‏

کوئی ایسا کام کریں جو آپ کو پسند ہو۔‏

باقاعدگی سے ورزش کریں۔‏